جب بھارتی کھلاڑی ظہیر عباس کو ظہیر ’اب بس‘ کہنے پر مجبور ہوگئے!
جب بھی کبھی کرکٹ تاریخ کے نامور بلے بازوں کا ذکر آتا ہے تو پاکستان کے مایہ ناز اور ریکارڈ ساز کھلاڑی ظہیر عباس کا ذکر اس میں ہمیشہ شامل ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اور کھیل کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں وہ جن مشکلات اور بیماریوں سے دوچار رہے اس سے کرکٹ کی دنیا میں پریشانی پھیل گئی۔ پھر دعا کے ساتھ ساتھ دوا نے بھی اپنا کام کیا اور وہ ڈھائی ماہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد اسپتال سے لندن کے اپنے گھر پہنچے۔ اب تو صحت اس قدر بہتر ہوچکی ہے کہ وہ لندن سے کراچی بھی آچکے ہیں۔
ان کی علالت کے دوران میں بھی اتفاقاً لندن میں تھا اور جب مجھے اجازت ملتی اور موقع ہوتا تو میں ان کی عیادت کے لیے اسپتال ضرور جاتا۔ ظہیر عباس سے میری 52 سال کی وابستگی اور دوستی کا یہ تقاضا تھا کہ میں ان کی خیریت دریافت کرنے کے علاوہ ان کے مداحوں اور دوسروں کو بھی ان کی صحت کے بارے میں اطلاع دیتا رہوں جو بے چینی سے ان کی خیریت معلوم کرنے کے خواہاں تھے۔
گزشتہ سال جون کے مہینے میں ظہیر عباس دورہ دبئی کے دوران کورونا کا شکار ہوگئے تھے اور جب وہ صحتیاب ہوکر لندن گئے تو نمونیہ کا شکار ہوگئے اور انہیں فوری طور پر اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں ان کا علاج ہوتا رہا۔
ظاہر ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کے لیے بستر سے لگ جانا بہت تکلیف کا باعث ہوتا ہے لیکن ظہیر عباس نے ان مشکلات کا بھی اسی طرح ڈٹ کرمقابلہ کیا جس طرح وہ مشکل سے مشکل باؤلنگ کا مقابلہ کرتے تھے۔ وہ لوگوں کی دعاؤں کے اثر کو بھولے نہیں اور اکثر ذکر کرتے ہیں کہ لوگوں کی دعائیں کام آگئیں۔
دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اور بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر بھی ان کی عیادت کے لیے آئے اور ایک گھنٹے تک ان کے پاس بیٹھ کر ان کی ہمت افزائی کرتے رہے۔
ظہیر عباس سے میری پہلی ملاقات لندن میں 1971ء کے دورے پر ہوئی تھی جب وہ اپنی 274 رنز کی ٹیسٹ اننگ سے دنیائے کرکٹ کو حیرت زدہ کررہے تھے۔ ظہیر عباس نے جب 274 رنز بنائے تھے تو وہ میچ میں نے تماشائیوں میں بیٹھ کر دیکھا تھا۔ اس وقت میں صحافی نہیں تھا۔ جب وہ لندن آئے تو وہاں کسی صاحب کے گھر پر ان کی دعوت تھی۔ ان صاحب سے میری بھی دوستی تھی۔ اس دعوت میں ظہیر عباس کے علاوہ 2، 3 مزید کھلاڑی مدعو تھے اور میں بھی مدعو تھا۔ وہاں میری ظہیر عباس سے ملاقات ہوئی اور تب سے ہماری دوستی پکی ہوگئی۔
اس کے بعد ظہیر عباس کسی کاؤنٹی میچ یا دیگر میچوں کے لیے جب بھی لندن آتے تو مجھے فون کرتے کہ میں آیا ہوا ہوں۔ یوں سمجھ لیں کہ میری اور ظہیر عباس کی دوستی 52 سال کی ہے۔
سیالکوٹ کے گاؤں مظفرپور میں پیدا ہونے والے ظہیر عباس 8 سال کی عمر میں اپنے والد غلام شبیر اور والدہ کنیز فاطمہ کے ہمراہ کراچی آگئے تھے۔ ان کے والد مشہور انجینیئر تھے۔
کراچی کے پاکستان کواٹر اور جہانگیر کواٹر کی گلیوں میں کھیلنے والا لڑکا ایک دن کرکٹ کی تاریخ میں ایک مشہور نام بن جائے گا یہ شاید خود اسے بھی نہیں پتا تھا۔ لیکن وہی بات کہ محنت تو محنت ہوتی ہے اور وہ آخر رنگ لے آئی۔ گلی کوچوں سے لے کر کالج اور کلب تک رنز کے انبار لگاتے ظہیر عباس لوگوں کی نظروں میں آنے لگے اور یوں ان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور دنیائے کرکٹ کی قسمت کا ستارہ بھی چمک اٹھا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پچھلے 60 سال میں جتنے بھی بلے بازوں کو میں نے دیکھا ہے اور ان کے میچ کور کیے ہیں ان میں سب سے graceful کھلاڑیوں میں ظہیر عباس کا نام سرِفہرست ہے۔ کیا گریگ چیپل، مارک وا، محمد اظہر الدین، ویو رچرڈ، روہن کنہائی اور تمام لیفٹ ہینڈر جیسے ڈیوڈ گوور اور گارفیلڈ سوربرز کا ظہیر عباس سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے ٹیسٹ میں ان کی چاروں ڈبل سنچریاں دیکھی ہیں۔
جتنے پاکستانی کھلاڑی گزرے ہیں ان میں سے ظہیر عباس سب سے زیادہ دوستانہ مزاج رکھنے والے فرد ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب 2020ء میں کورونا وائرس بے قابو تھا تو اس وقت وہ مجھے فون کرکے پوچھتے کہ کیا کررہے ہو۔ میں جواب دیتا کہ کورونا کی وجہ سے گھر میں بیٹھا ہوں تو وہ کہتے کہ میں آتا ہوں تمہارے گھر۔ وہ ماسک لگا کر آتے اور مجھے اپنے گھر لے جاکر لنچ کرواتے اور پھر واپس مجھے میرے گھر چھوڑتے تھے۔ میں انہیں کہتا کہ یہ رسک کیوں لے رہے تو جواب ملتا کہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔
ظہیر عباس ایشیا کے پہلے اور جیفری بائیکاٹ کے بعد دنیا کے دوسرے بیٹسمین ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے 100 سے زائد فرسٹ کلاس سنچریاں بنائیں۔ اسی طرح ظہیر عباس دنیا کے واحد بلے باز ہیں جنہوں نے 4 فرسٹ کلاس میچوں کے دوران ایک اننگ میں سنچری اور 2 اننگ میں ڈبل سنچریاں بنائیں اور آٹھوں اننگز میں کوئی انہیں آؤٹ نہیں کرسکا۔
ظہیر عباس نے 78 ٹیسٹ میچوں میں 12 سنچریاں اور 20 نصف سنچریاں اسکور کیں اور 44.79 کی اوسط کے ساتھ ٹیسٹ کیریئر میں 5 ہزار 62 رنز اسکور کیے۔ وہ ایک روزہ کرکٹ میں دنیا کے پہلے بلے باز ہیں جنہوں نے 3 لگاتار سنچریاں بنائیں۔
انہوں نے ون ڈے کیریئر میں 62 میچ کھیلے جن میں 7 سنچریاں اور 13 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ون ڈے کیریئر میں 47.62 کی اوسط سے 2 ہزار 572 رنز اسکور کیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کارنامے انجام دینا کسی عام بلے باز کے بس کی بات نہیں ہے۔
ظہیر عباس نے اپنی کاؤنٹی گلوسٹر شائر کے لیے کھیلتے ہوئے 49.79 کے اوسط سے 16 ہزار رنز بنائے اور 49 سنچریاں اور 76 نصف سنچریاں اسکور کیں جو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
یہاں مجھے ظہیر عباس کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ 1978ء اور 1982ء میں بھارت کے خلاف سیریز میں ظہیر عباس نے بھارت کے باؤلروں کی خوب مرمت کی۔ یہاں تک کہ بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ بھارت کے تمام کھلاڑی انہیں ظہیر عباس کہنے کے بجائے ’ظہیر اب بس‘ کہنے لگے۔
1971ء کے دورہ انگلینڈ کے دوران ایک صحافی نے جب ان کی بیٹنگ اور فارم کو دیکھا تو انہیں Asian Bradman کے خطاب سے نوازا۔ اس کے علاوہ انہیں 1971ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور 2018ء میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔
میں ظہیر عباس کے حوالے سے ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔ جب نسلی امتیاز کی وجہ سے آئی سی سی نے جنوبی افریقہ کی رکنیت ختم کردی تھی تو اس سے قبل 1970ء میں جنوبی افریقہ نے آخری ٹیسٹ سیریز ہوم گراؤنڈ پر آسٹریلیا کے خلاف کھیلی تھی۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کا دورہ کرنا تھا لیکن آئی سی سی کی رکنیت ختم ہونے کی وجہ سے وہ دورہ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد 1971ء میں ورلڈ الیون کو آسٹریلیا بھیجا گیا تھا جس میں ظہیر عباس بھی شامل تھے۔
اس دورے کے دوران ایک دن ظہیر عباس اپنے ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئے تو وہاں ڈان بریڈمین بیٹھے ہوئے تھے۔ ظہیر عباس ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھے، یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔ اس وقت ظہیر عباس 274 کی اننگ کھیل چکے تھے اور بہت مقبول تھے۔ تعارف ہونے پر ڈان بریڈمین نے انہیں کہا کہ ’میں نے تمہارے بارے میں بہت سنا ہے۔ تم مجھے اپنے ہاتھ دکھاؤ کہ آخر تمہارے ہاتھوں میں اتنی لچک کیسے ہے‘۔ ظہیر عباس نے انہیں اپنے دونوں ہاتھ دکھائے تو اس وقت ان کے ایک ہاتھ میں کوئی پیکٹ بھی تھا۔ بریڈمین نے ان کے ہاتھ دیکھ کر کہا کہ ’تمہارے ہاتھ پتلے اور انگلیاں لمبی ہیں اسی وجہ سے تم بہترین بلے بازی کرتے ہو، یہاں آسٹریلیا میں کھلاڑیوں کے ہاتھ ایسے نہیں ہوتے‘۔
اس کے بعد بریڈمین نے ظہیر عباس سے دریافت کیا کہ ان کے ہاتھ میں یہ پیکٹ کیا ہے۔ ظہیر عباس نے جواب دیا کہ یہ اوپل (ایک قیمتی پتھر) ہے۔ بریڈمین نے کہا کہ کیا تم نے یہ پتھر اپنی گرل فرینڈ کے لیے خریدا ہے؟ اس پر ظہیر عباس نے کہا کہ نہیں اپنی والدہ کے لیے۔ اس جواب پر ڈان بریڈمین نے کہا کہ ’اوہ مائی گاڈ، تمہارے ملک میں اب بھی یہ قدریں باقی ہیں کہ تم اپنی ماؤں کو تحفے دیتے ہو‘۔
وہ 2015ء میں آئی سی سی کے صدر بھی بنے۔ وہ دنیا کے تیسرے اور پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کھلاڑی ہیں جنہیں آئی سی سی کا صدر رہنے کا اعزاز ملا۔ ان سے قبل سر کالن کاؤڈری اور سر کلائڈ ویلکاٹ کو یہ اعزاز ملا تھا۔ انہیں 2020ء میں آئی سی سی ہال آف فیم میں بھی شامل کیا گیا، اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے چھٹے پاکستانی کھلاڑی تھے۔
ظہیر عباس کو اگر رنز بنانے کی مشین سمجھا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے 457 فرسٹ کلاس کرکٹ میچوں میں 51.54 کی اوسط سے 34 ہزار 843 رنز اسکور کیے جو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ظہیر عباس نے اپنا آخری ٹیسٹ سیالکوٹ میں سری لنکا کے خلاف کھیلا تھا۔ میں باؤنڈری لائن کے قریب ہی بیٹھا تھا اور ظہیر عباس تھرڈ مین پر فیلڈنگ کررہے تھے۔ انہوں نے مجھے سے کہا کہ چائے کے وقفے میں ذرا مجھ سے ملاقات کرنا۔ میں وقفے میں پویلین گیا تو عمران خان اور پوری ٹیم ڈریسنگ روم میں چلی گئی تھی اور ظہیر عباس لابی میں میرا انتظار کررہے تھے۔
میں نے پوچھا کہ سب خیریت ہے نا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں خیریت ہے بس تمہیں یہ بتانا تھا کہ یہ میرا آخری ٹیسٹ ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت حیرت ہوئی اور میں نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے اپنے والدین اور بیوی بچوں سے پوچھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں نے پوچھ لیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا کہ کیا کوئی گڑبڑ ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں کچھ نہیں ہوا بس میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ میرا آخری ٹیسٹ ہے۔
اس سے ایک روز پہلے بھی کچھ دلچسپ واقعات ہوئے۔ ظہیر عباس نے مجھے ہوٹل میں فون کرکے کہا کہ آج کہیں کھانا کھانے مت جائیے گا۔ مجھے پنجاب ریجمنٹ سے دعوت آئی ہوئی ہے تو آپ میرے ساتھ چلیے گا۔ وہاں انہوں نے نشانہ بازی کے لیے بلایا ہوا تھا۔ ہم پنجاب رجمنٹ کے ہیڈ کواٹر پہنچے تو وہاں 5 ماہر نشانہ باز موجود تھے، انہوں نے بندوقوں کے بارے میں ہمیں سمجھایا اور پھر ظہیر عباس کو زمین پر لٹا کر بندوق انہیں تھمائی اور نشانہ لگانے کو کہا، اس کے بعد میری باری آئی۔
جب ہم دونوں نشانہ لگا چکے تو ان ماہر نشانہ بازوں میں سے ایک ان نشانوں کو دیکھنے گیا اور واپس آکر ہم سے پوچھنے لگا کہ ’آپ لوگوں نے پہلے بندوق کب چلائی ہے؟‘ میں جواب دیا کہ میں نے تو ایک ہی مرتبہ بندوق چلائی ہے، تب میں نے ہندوستان میں ایک بار بارہ سنگے کا شکار کیا تھا۔ ظہیر عباس نے کہا کہ ’میں نے تو کبھی بندوق نہیں چلائی‘، جس پر وہ صاحب بہت حیران ہوئے کیونکہ ہمارے نشانے بالکل ٹھیک جگہ پر لگے تھے اور وہ یہ سوچ رہے تھے کہ آخر یہ کیسے ہوا۔ ان کی حیرانی دیکھ کر میں نے کہا میں آپ کو ایک بات بتاسکتا ہوں کہ جن کھیلوں میں گیند شامل ہوتی ہے ان کے کھلاڑیوں کی توجہ بہت تیز ہوتی ہے۔ چونکہ ہم دونوں کرکٹر ہیں تو ممکن ہے کہ اس وجہ سے ہم نے بہتر نشانہ لگایا ہو۔
اس کے بعد وہاں موجود کرنل صاحب ہمیں بھارت کا بارڈر دکھانے لے گئے۔ وہاں پہنچے تو بارڈر کی دوسری طرف کچھ بھارتی فوجی کھڑے تھے جنہوں نے ظہیر عباس کو پہچان لیا اور ان کے ساتھ تصویر لینے کی فرمائش کرتے ہوئے ہمارے ساتھ موجود کرنل صاحب سے کہا کہ انہیں بارڈر پار کرنے کی اجازت دے دیں۔ کرنل صاحب نے ہمیں کہا کہ میں تو بارڈر پار نہیں کرسکتا آپ لوگ چلے جائیں۔ ظہیر عباس اپنے ساتھ مجھے بھی لے گئے۔ وہاں تصاویر لینے کے بعد انہوں میں وہاں موجود فوجیوں سے میرا تعارف کروایا کہ یہ بی بی سی کے قمر احمد ہیں تو ان فوجیوں کی حیرت کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم تو یہاں ریڈیو پر ان کو سنتے ہیں۔ وہاں ان بھارتی فوجیوں نے ہماری خوب خاطر مدارت کی۔
گورنمنٹ اسلامیہ کالج کراچی کے اس طالب علم نے نہ صرف پاکستان کا نام روشن کیا بلکہ کرکٹ کی تاریخ کا ایک روشن باب بھی بن گیا۔ وہ پاکستانی ٹیم کے کپتان رہنے کے علاوہ آئی سی سی کے میچ ریفری، سلیکٹر اور پاکستانی ٹیم کے منیجر بھی رہے۔ کرکٹ کی تاریخ کے اس عظیم کھلاڑی کی زندگی اس دور اور آنے والے دور کی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ رہے گی۔
ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ ان کو سلامت رکھے اور صحت مند رکھے کیونکہ دنیائے کرکٹ کے مداحوں کو ان کی سلامتی اور صحت بہت عزیز ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ’فار مور دین اے گیم‘ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔