کراچی کے چار ’ک‘
’یار یہ کس نے کراچی کے لوگوں کو بتا دیا ہے کہ کبوتروں کو باجرہ ڈالنا چاہیے؟‘
میرے دوست نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا۔
’جہاں دیکھو کبوتر۔ ابھی ایک ہفتے پہلے ہی میرے بیڈ روم کی کھڑکی پر کبوتروں کا ایک جوڑا زچگی کے معاملات انجام دے کر اڑا ہے، ایک غسل خانے کے روشن دان میں دبکا بیٹھا ہے اور ایک جوڑا جگہ کا چکر لگا رہا ہے۔ یار میں ہر وقت کی اس غٹرغوں سے تنگ آگیا ہوں۔‘
اب میں اپنے دوست کو کیا بتاتا کہ مجھ سمیت بیشتر گھروں کی چھت یا کھڑکیوں میں کبوتروں کے خاندان آباد ہیں۔ اس کبوتر پروری کی وجہ شہر میں اکثر پُلوں کے نیچے اور چوراہوں پر بیٹھے باجرہ فروخت کرنے والے ہیں جن سے لوگ اپنی منتوں، مرادوں اور صدقے کے لیے باجرہ خرید کر وہیں کبوتروں کے لیے بکھیر دیتے ہیں۔
امیدیں بر آنے کا علم تو نہیں تاہم اس فلاحی باجرہ بازی کے نتیجے میں فیملی پلاننگ کے اصولوں سے بے خبر یہ کبوتر، مسلسل مائلِ افزائش ہیں۔ میرے دوست کبوتر کو کراچی کا ایک ’ک‘ قرار دیتے ہیں اور 6 کبوتر ملاکر اپنے اہل و عیال کی کُل تعداد 11 بتاتے ہیں۔
کراچی کے پیار کے کئی نام ہیں۔ عروس البلاد، شہر بندرگاہ، کولاچی وغیرہ۔ اپنی کتاب ’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘ جناب عثمان داموہی نے لکھا ہے کہ اس شہر کو 32 مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے جن کی نسبت اس کی کسی نہ کسی خصوصیت سے جڑی رہی ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی: چھوٹے گاؤں سے بڑے گاؤں تک
اس شہر کے رہنے اور چاہنے والوں نے کبھی محبت اور کبھی بغض میں اس کا استعمال یا استحصال کیا۔ تاہم اس باظرف شہر نے خنداں پیشانی سے ہر ضربِ کدال کے بدلے میں دستہ گل پیش کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو یہاں آیا وہ یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ پھر معصوم کبوتر سے کیا شکوہ، اس خوش نصیب جنس کو تو ہماری قومی اقدار کے برخلاف اس کی زندگی میں ہی عزت و تکریم سے نوازا گیا ہے۔ سندھ سیکریٹریٹ کے سامنے موجود ’کبوتر چوک‘ اس کی مظہر ہے۔
کراچی کے دوسرے ’ک‘ کا حجم اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 13 ہزار ٹن یومیہ ہے۔ یہ اس شہر کی کچرا پیداواری صلاحیت ہے جس کا 70 فیصد تو اٹھالیا جاتا ہے تاہم بقیہ یا تو بحیرہ عرب اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے یا پھر ہمارے گلی محلوں، نالوں اور سڑکوں کے کناروں پر ’نظر بٹو‘ کے طور پر موجود رہتا ہے۔ یہ کچرے کے ڈھیر بھی اپنے پالنے والے شہر کی لاج رکھتے ہیں اور دسترخوان بنے علاقے کے آوارہ کتوں، چیل کوؤں، گائے اور دوسرے چرند پرند کی مہمان نوازی کرتے نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھیے: سائیں! کراچی والوں پر یہ ٹیکس لگائیں
کراچی کے شہری آتے جاتے ایک ادائے بے نیازی سے کوڑے کی تھیلی دُور ہی سے اچھال کر اس ڈھیر میں گویا ’چہرہ داغدار کو اور بھی داغدار کر۔۔۔‘ اپنا حصہ ڈالتے ہیں، دانت پیس کر حکومت کو کوستے ہیں اور خود یوں بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے کیچڑ بھرے تالاب میں پلاسٹک کا لباس پہن کر کھڑا ہونے والا فرد خود کو صاف سمجھتا ہے۔ کچھ دل جلے ان کچرے کے ڈھیروں کو اکثر آگ لگا کر نئے کچرے کے لیے جگہ بنا دیتے ہیں۔ ’کچراچی‘ کے جلاپے کا یہ زہریلا دھواں اہلِ محلہ کی ناک کے دونوں نتھنوں سے ہوتا ہوا دونوں پھیپھڑوں پر جاکر جم جاتا ہے۔
جلے تو جلاؤ گوری۔۔۔ کچرے کی بہتات نے دو اور ذیلی ’ک‘ جنم دیے ہیں یعنی کوّے اور کتے۔
کوّے چاہے کتنا ہی کائیں کائیں کرکے کان کھائیں، میں ذاتی طور پر ان کا بہت مشکور ہوں اور بہت عرصے سے کے ایم سی کا مطلب احتراماً ’کوّا میٹروپولیٹن کارپوریشن‘ بتاتا آرہا ہوں۔ بغیر کوئی تنخواہ لیے، نخرہ یا ناغہ کیے یہ کوّے کچرے کو کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور متعدد کچرا کنڈیوں کو حفاظتی حصار میں لے کر ان کے اوپر منڈلاتے رہتے ہیں۔
کچرے کے ڈھیر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنی کزن چیل کے ہمراہ یہ آپ کو پتنگوں کی مانند دُور ہی سے اڑتے دکھائی دیے جائیں گے جن کو ’بوکاٹا‘ کرنے کے لیے درمیان سے گزرتے کبوتر بھی نظر آئیں گے۔ کسی زمانے میں کراچی میں بکثرت اڑنے والی کوئل، ہرے طوطے اور فاختہ اب صرف صاحبِ ذوق اور شوقین افراد کے گھروں میں رکھے پنجروں میں یادِ رفتگاں کی صورت قید ہیں۔
مزید پڑھیے: ’مغلوں نے کراچی کے ساتھ بہت تعصب برتا‘
انسان کا سب سے بہترین دوست مانا جانے والا جانور کتا، کراچی کا ایک اور ’ک‘ مانا جاتا ہے۔ کچروں کے ڈھیر پر ضیافت کرتے کتے، کچرے کی صفائی اور علاقے کے گشت کا فریضہ بیک وقت انجام دیتے ہیں۔ کراچی کی ہر دوسری گلی میں یہ ’کتا راج‘ دیکھا جاسکتا ہے۔
کچھ جگہوں پر تو یہ کتے گلی میں پیدل آنے جانے والوں کے ہمقدم چلتے ہیں اور اظہارِ وفاداری کے طور پر نئے آنے والوں پر بھونکتے بھی ہیں۔ کچھ فرطِ جذبات میں کاٹ بھی لیتے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں اس قسم کے سیکڑوں واقعات ہوچکے ہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں کی اس بحث سے لاپروا رہ کہ کتے مارے جائیں یا بچائے جائیں، یہ کتا کاٹ تاحال جاری ہے۔
لیکن صاحب، اس شہر کی آغوش بہت وسیع ہے۔ کچھ عرصے پہلے ہی ناظم آباد کی شارع نور جہاں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک چوڑے موڑ پر کچرے کا ڈھیر، کتوں کے غول اور منڈلاتے کوّوں کی ٹولیوں کے پیش منظر میں، پُرامن بقائے باہمی کے تحت، کراچی کے 2 اور ’ک‘ مصروف عمل تھے یعنی کرکٹ کھیلتے بچے اور گرم گرم کچوریاں تلتا کھانے کا ایک ٹھیلا۔
خالد محمود ناصر ہیومن ریسورس سے وابستہ ہیں۔ اس شعبہ میں ایم ایس کے ساتھ ساتھ ماس کمیونیکیشن میں بھی ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔ مختلف النوع موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز میں اکثر قلمکاریاں کرتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔