پاکستان

ٹنڈو محمد خان: مین پوری فیکٹری پر چھاپے کے دوران پولیس اہلکار یرغمال

70-موری گاؤں میں مین پوری مینوفیکچرر کے حامیوں نے 7 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا جنہیں مختلف اضلاع کی پولیس نے ریسکیو کیا۔

ٹنڈو محمد خان ضلع کے 70-موری گاؤں میں مین پوری مینوفیکچرر کے حامیوں نے 7 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا جنہیں حیدر آباد رینج کے مختلف اضلاع کی پولیس کی بھاری نفری ریسکیو کرنے پہنچی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے ایس پی علینہ نے تصدیق کی کہ ڈی آئی جی پیر محمد شاہ کی ہدایت پر انہوں نے اکبر لغاری کی مین پوری فیکٹری پر چھاپہ مارا جہاں ہجوم نے پولیس پارٹی کو یرغمال بنا لیا۔

اے ایس پی کو یرغمال بنائے جانے کی اطلاعات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے چوٹیں آئیں اور نہ ہی یرغمال بنایا گیا، انہوں نے کہا کہ ہجوم نے یرغمال بنائے پولیس اہلکاروں کی تذلیل بھی کی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن،بڑی کامیابی نہ مل سکی

ہجوم کے ساتھ ہاتھا پائی کے دوران 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور انہیں طبی امداد کے لیے لیاقت یونیورسٹی ہسپتال سٹی برانچ لایا گیا۔

حیدر آباد کے ڈی آئی جی آفس کی جانب سے معاملے کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی 2 ٹیمیں علاقے میں پہنچیں جن میں سے ایک کی سربراہی اے ایس پی اور دوسری کی ظفر چانڈیو کر رہے تھے جو کہ ڈی آئی جی کی ٹیم کے رکن بتائے جاتے ہیں، جب کہ ایک پولیس اہلکار امام بخش زرداری بھی ٹیم میں شامل تھا جو کہ حیدر آباد میں تعینات نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: کچے کے علاقے سے جلد ڈاکوؤں کا صفایا کردیں گے، وزیراعلیٰ سندھ

دوسری ٹیم کے سربراہ ظفر چانڈیو کا عہدہ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی اے ایس پی اس سے آگاہ تھیں، ظفر چانڈیو ڈی آئی جی کی ٹیم میں شامل تھے جب پیر محمد شاہ ایس ایس پی حیدر آباد تھے، وہ مین پوری بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے مشہور ہیں۔

اس دوران علاقے میں ہوائی فائرنگ کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں، ذرائع نے بتایا کہ ٹنڈو محمد خان پولیس کو حیدر آباد پولیس کی جانب سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

واقعے کے تقریباً 90 منٹ بعد ٹنڈو محمد خان پولیس ایس ایس پی عبداللہ میمن کی سربراہی میں گاؤں پہنچی جب کہ اس حوالے سے رد عمل دینے کے لیے ایس ایس پی دستیاب نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: گھروں میں ڈکیتی، مزاحمت پر خاتون ڈاکٹر اور پولیس افسر کا گارڈ قتل

ذرائع نے بتایا کہ چھاپے کے دوران پولیس کی دونوں ٹیموں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، پولیس ذرائع نے بتایا کہ بعد میں ڈی آئی جی نے ٹھٹہ، حیدر آباد، ٹنڈو الہیار اور بدین پولیس سے یرغمال بنائے گئے اہلکاروں کو ریسکیو کرنے کے لیے مدد طلب کی۔

ذرائع نے بتایا کہ چھاپے کے باوجود مجرم بڑی مقدار میں مین پوری اپنے ساتھ لے گئے جو تقریباً 1200 تھیلے بتائے گئے ہیں، غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق 600 تھیلے ضبط کیے گئے۔

مین پوری ٹنڈو الہیار کے کسی شخص کی تھی جسے اکبر لغاری کے پاس رکھا گیا تھا جو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: گھوٹکی: پنجاب،سندھ پولیس کا 11 ڈاکو ہلاک کرنے کا دعویٰ

مین پوری ضبط کرنے کے لیے پولیس گاڑیاں بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔

زخمی پولیس اہلکاروں میں بدین سے تعلق رکھنے والے پولیس کانسٹیبل شاہ جہاں، ٹنڈو الہیار سے تعلق رکھنے والے علی اصغر کھوسو اور یونس خان، سجاول سے تعلق رکھنے والے رفیق احمد جتوئی، جامشورو سے تعلق رکھنے والے ساجد حسین اور مٹیاری سے تعلق رکھنے والے ارباب علی منگی شامل ہیں۔

ڈی آئی جی پیر محمد شاہ معاملے پر ردعمل دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔