نقطہ نظر

پاکستانیوں میں وطن سے باہر جانے کی خواہش کیوں بڑھنے لگی؟

میں نے جن لوگوں سے بھی پوچھا ان میں سے کسی نے بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا کہ اس سال مایوسی کا احساس بہت زیادہ ہے۔

حال ہی میں ہونے والی ایک گفتگو کے دوران میرے دوست اور ساتھی صحافی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں ایئر کنڈیشننگ کا کام نہیں آتا۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے اس افسوس کی وجہ پوچھتی انہوں نے خود ہی بتادیا کہ ہیٹنگ اور ایئر کنڈیشننگ کے کام کی بہت مانگ ہے (پاکستان سے دُور کچھ ممالک میں)۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک ایسا ہنر ہے جو ان کے لیے بیرونِ ملک رہنے کو یقینی بناسکتا ہے۔

مجھے ایک اور دوست کے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی یاد آئی۔ میرے اس دوست کا تعلق صحافت سے نہیں تھا۔ ہم یونہی سیاست پر گفتگو کررہے تھے کہ اس نے ذکر کیا کہ وہ بیرونِ ملک مواقع تلاش کررہا ہے۔ اس کا مطلب کچھ یہی تھا کہ وہ ان ممالک کی تلاش میں ہے جہاں رہائش کے قوانین اور پاسپورٹ کا حصول آسان ہو۔ یہ بتانے کے ساتھ ہی اس نے مجھے تجویز دی کہ میں بھی بیرونِ ملک فیلو شپ تلاش کروں۔

کھانے کی میز پر ہونے والی بات چیت کے دوران میری سہیلی نے کہا کہ وہ شکر ادا کرتی ہے کہ اس کے بچے نہیں ہیں۔ ساتھ بیٹھے اس کے شوہر نے بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا۔

میرے ایک رفیق کار نے اپنے بچے کی ولادت کے سلسلے میں کچھ دن اسپتال میں گزارے اور واپس آکر کئی کہانیاں سنائیں کہ اس کے اطراف موجود لوگ کیا کہہ رہے تھے۔ اس نے کہا کہ لوگ بڑی ہی ’رنگین‘ زبان کا استعمال کررہے تھے اور انہوں نے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے مطابق لوگوں میں غصہ اتنا تھا کہ کچھ لوگ ان افراد کے خلاف تشدد کے لیے بھی تیار تھے جنہیں وہ مسائل کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔

مزید پڑھیے: پاکستانی سیاست: ’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے‘

ایسی بہت سی کہانیاں ہیں اور ہر کہانی یا تو اخراجات پورے کرنے کے حوالے سے ہے یا پھر ناامیدی کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایسے فرد کو ڈھونڈنا مشکل ہے جو اب بھی اپنے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہو۔ ایسے لوگوں کی اکثریت تو پُرامید لوگوں پر مشتمل ہوگی جو کبھی جوان تھے اور پاکستان میں رہتے ہوئے ایک اچھی زندگی کے لیے پُرامید تھے۔ تاہم وہ لوگ جو اس قسم کے انتخاب کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ان کے لیے صرف غصہ اور مایوسی ہی ہے۔

میرے معاملے میں تو یہ کسی خاص طبقے یا عمر سے متعلق افراد کی رائے ہوسکتی ہے۔ میرا جن لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا ہے وہ اس بارے میں بہت زیادہ بات کرتے ہیں کہ ان کا طرزِ زندگی کس طرح منفی طور پر متاثر ہوا ہے۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ درمیانی عمر میں آنے والے خیالات بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ ہم میں بہت سے لوگ اب اس عمر میں ہیں۔

میں نے مزید کھوج کی تو معلوم ہوا کہ اب تو کاروباری لوگ بھی اپنے پیسے اور خاندان کو بیرونِ ملک منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ (اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے لوگ بھتہ خوری کی وجہ سے ایسا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔)

میں نے جن لوگوں سے بھی پوچھا ان میں سے کسی نے بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا کہ اس سال مایوسی کا احساس بہت زیادہ ہے۔ ان لوگوں میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی شامل تھے۔

یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ پاکستانی کبھی بہت زیادہ پُرامید نہیں رہے ہیں۔ درحقیقت یہ بات کئی لوگوں کے لیے حیران کن ہوتی ہے کہ ہم خود پر بہت تنقید کرتے ہیں اور اپنی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے بھی بہت مایوس رہتے ہیں۔

میں نے بھی اس بارے میں ایک سے زائد مرتبہ لکھا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس بارے میں کوئی واضح جواب تو دستیاب نہیں ہے لیکن ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ شاید اس کا تعلق ملک میں رہنے والے طویل آمرانہ ادوار سے ہو جہاں پالیسی سازی صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری پالیسیوں، سیاست اور شناخت میں لوگوں کا حصہ نہ ہونے کا نتیجہ خود سے نفرت کرنے اور خود پر دائمی تنقید کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا میں افرادی قوت کی کمی اور پاکستانیوں کے لیے امکانات

یہ ہمارا قومی مشغلہ تو تھا ہی لیکن اس سال یہ احساس بہت زیادہ ہے اور کئی لوگ اس کا شکار ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ معاشی عدم استحکام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عروج و زوال کے چکر میں عروج کا دورانیہ سکڑتا جارہا ہے جبکہ زوال شدید تر اور اس کا دورانیہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ پھر بیرونی اثرات (موجودہ اور ممکنہ) کو دیکھتے ہوئے مستقبل بھی بہتر نظر نہیں آتا۔

اس سے بڑھ کر مایوسی اور ناامیدی کا احساس ہمارے ’ذمہ داروں‘ اور اقتدار کے لیے لڑنے والوں کے رویے سے پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی معنی خیز تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتا یا پھر اس کی ضرورت کو نہیں سمجھتا۔ سیاستدان اقتدار حاصل کرنے اور اپنے مخالف کا خاتمہ یقینی بنانے میں مصروف ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی 1990ء کی دہائی میں رہتے ہوئے ڈالر جمع کرنے اور رائے سازی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔

حکمرانوں کے دونوں گروہوں سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ کچھ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انتخابات چاہتی ہے لیکن انتخابات کے بعد کے امور کے حوالے سے کوئی یقین دہانی بھی نہیں کرواتی۔ مسلم لیگ (ن) اپنی (ذاتی) شکایات کا ازالہ کرنے میں مصروف ہے اور اپنی سابقہ ​​مدت کو واپس لینا چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرح یہی سمجھتی ہے کہ دنیا کو یہ ماننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان اب بھی اہمیت رکھتا ہے۔

ملک میں آنے والے سیلاب کے حوالے سے دنیا کے سامنے جس انداز میں بات کی گئی اور کابینہ میں جس تیزی سے اضافہ کیا جارہا ہے وہ حیران کن ہے۔ پھر یہ خیال کہ حکومت کچھ وقت گزرنے کے ساتھ کھویا ہوا سیاسی میدان واپس حاصل کرلے گی بالکل غیر منطقی ہے۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے 2018ء میں یہ کہا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کو سب کچھ درست کرنے کے لیے 6 ماہ دیے جائیں۔

ہماری قیادت یا حکمران اشرافیہ جس طرح عوامی امنگوں کو نظرانداز کرتی ہے وہ حیران کن ہے۔ ایک سیاستدان کے مطابق لوگ اتنے غصے میں ہیں اور انہیں اتنا نظرانداز کیا گیا ہے کہ وہ اب کسی بھی ایسی جماعت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے جو اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ بلند کرے گی۔ ماضی میں یہ کردار مسلم لیگ (ن) نے ادا کیا اور اب پی ٹی آئی ادا کررہی ہے تاہم کہیں خطرے کی گھنٹی نہیں بج رہی۔

مزید پڑھیے: سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے لیے یہ ٹھیک وقت کیوں ہے؟

شاید اس غصے اور ناامیدی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر پہلے آبادی کا ایک حصہ ہمارے سیاستدانوں کے علاوہ بھی کسی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا تو اب ایسا نہیں رہا۔

یہ یاد رکھنا بھی مفید ہوگا کہ پنجاب میں بھی صورتحال کچھ یہی ہے۔ دیگر جگہوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں بلوچستان میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور کراچی جیسے شہری مرکز میں جرائم میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہمارے اربابِ اختیار اس حوالے سے آپس میں بات چیت کریں۔ یہ اس ’سچائی اور مفاہمت‘ کے عمل سے تو بہتر ہی ہے جو ایک دوسرے پر الزام تراشی اور جمہوریت پر ضرب لگانے کے لیے ان کا کوڈ ورڈ ہے، ایک ایسا کوڈ ورڈ جس کا مقصد اپنے لیے اقتدار کا حصول ہے۔ وہ بھی جلد کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔


یہ مضمون 11 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔