پاکستان

عمران خان نے قوم کے خلاف سازش کی جس کی آڈیو آچکی ہے، وزیر اعظم

اس سے بڑا جرم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک وزیر اعظم اپنے دفتر میں بیٹھ کر بولیاں لگائے، اس کے لیے پیسا کہاں سے آیا، وزیر اعظم
|

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان دنیا میں سب سے زیادہ فراڈ اور جھوٹ بولنے والے شخص ہیں، انہوں نے قوم کے خلاف سازش کی جس کی آڈیو آچکی ہے۔

لاہور میں اسپیشل کورٹ سینٹرل میں منی لانڈرنگ مقدمے کی پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم عدالت اور قانون کا احترام کرنے والے لوگ ہیں، چاہے کوئی وزیر اعظم ہو یا گورنر، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ 2017 میں عدالت نے نواز شریف کو تقریباً 100 روز تک روزانہ کی بنیاد پر طلب کیا تو انہوں نے عدالت سے کوئی این آر او نہں مانگا بلکہ پاناما کی تحقیقات کے لیے خود سپریم کورٹ کو خط لکھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے خندہ پیشانی سے کئی کئی سال بدترین صعوبتیں برداشت کیں، میری پارٹی کےساتھیوں نے بھی بڑی جرات کے ساتھ جیلیں کاٹیں اور ظلم برداشت کیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے دی

وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان کی اس سے زیادہ گھٹیا اور قابل مذمت اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ مریم نواز کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے این آر او ملا ہے، مریم نواز نے اپنا مقدمہ میرٹ پر لڑا، مریم نواز کو نیب قوانین میں ترامیم کے تحت بریت نہیں ملی بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کے اصل قانون کے تحت انہیں بریت دی۔

شہباز شریف نے کہا کہ جب عمران خان نئے نئے وزیراعظم بنے تھے اس وقت ان بہن علیمہ خان کو ایف بھی آر سے این آر او میں نے تو نہیں دلوایا تھا، چند ہفتوں قبل فرح گوگی کو محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب سے کلین چٹ میں نے تو نہیں دلوائی، 3 روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے ایک حلیف کو کلین چٹ دی، یہ این آر او بھی میں نے نہیں دلوایا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ہیلی کاپٹر کیس بند کردیا گیا، وہ این آر او عمران خان نے اپنے لیے خود دلوایا یا میں نے دلوایا؟ میں تو آج بھی عدالت کے سامنے پیش ہوا ہوں تاکہ دنیا کو یہ احساس ہو کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان دنیا میں سب سے زیادہ فراڈ اور جھوٹ بولنے والے شخص ہیں، انہوں نے قوم کے خلاف سازش کی جس کی آڈیو آچکی ہے۔

مزید پڑھیں: آڈیو لیکس بڑی کوتاہی ہے، اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی بنا رہے ہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ آپ دھڑلے سے کہتے تھے تھے کہ یہ امپورٹڈ حکومت ہے جس نے امریکا کے ساتھ سازباز کی، آپ کا یہ سارا ڈراما بے نقاب ہوگیا، آڈیو میں آپ کہتے سنے گئے کہ امریکا کا نام نہیں لینا بس کھیلنا ہے اور آپ کا سیکریٹری کہتا ہے کہ منٹس تو میں نے بنانے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اب جو آڈیوز آئی ہیں اس میں عمران خان کہتے ہیں کہ میں نے 5 ووٹ خرید لیے ہیں، اس سے بڑا جرم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک وزیر اعظم اپنے دفتر میں بیٹھ کر بولیاں لگائے، خرید و فروخت اور ضمیر فروشی کرے، اس کے لیے پیسا کہاں سے آیا، کس سے پیسا لیا؟

انہوں نے کہا کہ اب وہ زمانہ یاد کرلیں جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار دن رات عدالتیں لگایا کرتے تھے، کوئی اعتراض نہیں کہ یہ ان کا حق تھا، 56 کمپنیوں کے نام پر مجھے بدنام کیا گیا، 4 برس گزر گئے اس بات کو، اس نظام اور چیف جسٹس سے سوال ہے کہ وہ 56 کمپنیاں تو آج بھی کام کر رہی ہیں، میں نے تو ان کمپنیوں سے دن رات کام لیا اور ملک کی تقدیر بدلی۔

انہوں نے کہا کہ کیا اب عمران خان کو کس عدالت نے طلب کیا جب وہ خود تسلیم کررہے ہیں کہ میں نے 5 ووٹ خریدے ہیں، عمران خان کہتے تھے کہ جو ضمیر فروشی کرتا ہے اس کے بچوں سے کوئی شادی نہ کرے اور جو یہ حرکت کرتا ہے اس نے شرک کیا، اتنے بڑے بڑے فتوے دیے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: وزیراعظم، حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستیں، فرد جرم ایک بار پھر مؤخر

شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان ریاست مدینہ کا یہ نام لیتے رہے لیکن ان کے کام دیکھ لیں، ریاست مدینہ میں تو خلیفۂ وقت اپنے بیٹے کو کہتے ہیں کہ جائز منافع سے زیادہ رقم بیت المال میں جمع کراؤ جبکہ یہ اعتراف کررہے ہیں کہ میں نے ضمیر فروشی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کوئلے کی دلالی میں منہ کالا کیا، دن رات جھوٹ بولا اور دنیا سے پاکستان کے تعلقات توڑے جس کو اب ہم تنکا تنکا جوڑ رہے ہیں، پاکستان کے خلاف اس سے بڑی سازش اور گھٹیا ذہنیت شاید ہی میں نے کبھی دیکھی ہو۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں صبر اور ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے، ہمیں پاکستان کو جھوٹ اور سازش سے نہیں بلکہ کام کر کے دنیا کی عظیم طاقت بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں انہوں نے کوئی کام نہیں کیا، اس سے بڑا فریبی اور دھوکے باز شخص میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔

مزید پڑھیں: 'زرِمبادلہ آتا کسے اچھا نہیں لگتا، لیکن چینی برآمد کرکے عوام پر بوجھ نہیں ڈال سکتا'

پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق سوال پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی اگر ہوئی تو آئینی طریقے سے ہی ہوگی جیسے قومی اسمبلی میں ہوئی، پنجاب میں حمزہ شہباز آئینی طریقے سے وزیراعلیٰ بنے تھے، ایسا کوئی معاملہ ہوا تو آئینی طریقے سے ہی ہوگا جس پر کسی کو اعتراض نہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے آڈیو میں کہا کہ لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق کہنا ہے، یہ وہ ذہنیت ہے جس نے پاکستان کو دنیا میں رسوا کر دیا، آج دنیا کا کوئی لیڈر وزیر اعظم ہاؤس میں گفتگو کرنے سے پہلے 100 بار سوچے گا۔

انہوں نے کہا کہ الحمد اللہ ڈالر نیچے آرہا ہے، یہ عوام کی دعائیں، اللہ کا کرم اور اسحٰق ڈار کی محنت ہے۔

منی لانڈرنگ کیس کی سماعت

قبل ازیں ایف آئی اے کی اسپیشل سینٹرل کورٹ میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی، جس میں وزیراعظم شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے جب کہ حمزہ شہباز کی جانب سے میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں جمع کروایا گیا، جس پر عدالت نے حمزہ شہباز کی حاضری معافی کی درخواست منظور کرلی۔

جج اعجاز حسن اعوان کے روبرو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر دلائل شروع ہوئے، وکیل امجد پرویز نے شہباز شریف کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے چالان میں 9 ارب روپے کے الزام کو ختم کر دیا، 9 ارب کے ان 5 اکاونٹس کا تعلق سلیمان شہباز یا شریف گروپ سے نہیں بلکہ مشتاق چینی سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے مشتاق چینی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، ایف آئی آر میں جو کک بیکس اور رشوت کی کہانی بیان کی گئی وہ چالان میں نہیں، رشوت اور کک بیکس صرف الف لیلٰی کی کہانیاں ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے مونس الٰہی کے خلاف اسی نوعیت کے کیس کو خارج کیا، اس پر جج نے استفسار کیا کہ کیا مونس الہیٰ کیس میں ہائیکورٹ کی ججمنٹ آ گئی ہے، جواب میں امجد پرویز نے کہا کہ جی ججمنٹ آ گئی ہے، کچھ دیر میں تصدیق شدہ کاپی پیش کر دیں گے، اس مقدمے میں فرد جرم نہیں لگ سکتی ہے اور نہ ہی کیس آگے چل سکتا ہے۔

دریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف سپیشل کورٹ سینٹرل پہنچ گئے، ان کی آمد پر ان کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شہباز شریف قانون کی سر بلندی کے لیے بطور وزیر اعظم عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ کیا کیس کے ملزم مقصود سے بھی انکوائری ہوئی؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ مقصود اب فوت ہو گیا ہے، اس سے ایف آئی اے نے انکوائری نہیں کی، مقصود ٹیکس دیتا تھا، اسکا آڈٹ بھی ہوتا تھا، مقصود اب یہاں نہیں اس لیے اب کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ جو کہانی ایف آئی اے نے لکھی اسکا ثبوت ہی نہیں ہے، یہ سیاسی نوعیت کا کیس ہے، ایف آئی اے کا کیس صرف کہانی ہے جو اس وقت کے مشیر داخلہ نے لکھوائی، لگتا ہے کسی نے نیٹ فلیکس کی سیریز ’منی ہائسٹ‘ دیکھی اور یہ کیس بنا دیا۔

دوران سماعت وزیر اعظم شہباز شریف روسٹرم پر آ گئے اور عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بطور وزیر اعلٰی 3 ادوار میں، میں نے تنخواہ اور اپنا ٹی اے ڈی اے چھوڑے جوکہ 8، 10 کروڑ بنتا ہے، بطور وزیر اعظم بھی تنخواہ نہیں لے رہا، بیرون ملک سفر کے اخراجات میں خود برداشت کرتا تھا، ایک طرف میں کروڑوں روپے چھوڑ رہا ہوں تو کیا 25 لاکھ روپے کی منہ ماری کروں گا؟

وزیر اعظم کی بریت کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا اور شہباز شریف کو جانے کی اجازت دے دی۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے بریت کی درخواست پر دلائل دیے۔

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز پر رشوت کا کوئی الزام نہیں ہے، شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے کوئی کک بیکس نہیں لیے، بے نامی اکاؤنٹ کھولنا یا آپریٹ کرنا منی لانڈرنگ نہیں ہے، ایف آئی اے نے بینکرز کے بیان جان بوجھ کر چھپائے۔

دوران سماعت ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ بینکرز ہمیں درکار نہیں تھے اس لیے ان کے بیان کو چالان کا حصہ نہیں بنایا۔

جج نے استفسار کیا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے علاؤہ باقی ملزمان کے خلاف کیا الزامات ہیں، امجد پرویز نے جواب دیا کہ باقی ملزمان پر اعانت کا الزام ہے، اس کیس میں 3 ملزمان کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس اس کیس کا وہی ریکارڈ ہے جب رجیم چینج نہیں ہوئی تھی، ایف آئی اے نے شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد ریکارڈ میں کوئی ردوبدل نہیں کیا۔

عدالت نے امجد پرویز کو ہدایت دی کہ مجھے ایک ٹیبل بنا دیں کہ کس الزام پر کیا شہادت ہے۔

وکیل ایف آئی اے نے کہا کہ ہم بھی ایک ٹیبل دیں گے کہ کس الزام پر ہمارے پاس کیا شہادت ہے۔

بعد ازاں عدالت نے حمزہ شہباز کی بریت کی درخواست پر دلائل مکمل کرنے کے لیے 11 اکتوبر کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

منی لانڈرنگ کیس

خیال رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، سلیمان شہباز برطانیہ میں ہیں اور انہیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔

بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5(2) اور 5(3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی توثیق

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کی درخواست پر شہباز شریف 4 اپریل کو عدالت طلب

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

جمہوری اداروں کا احترام کریں، فیک نیوز پر توجہ نہ دیں، آرمی چیف

’فیفا ورلڈ کپ 2022‘ کا آفیشل گانا ’لائٹ دی اسکائے‘ ریلیز

سائفر دفتر خارجہ میں محفوظ حالت میں موجود ہے، ترجمان دفتر خارجہ