ڈارنامکس بمقابلہ مفتاح نامکس
کسی ملک کی معیشت کیسی ہونی چاہیے اس حوالے سے ہر سیاسی جماعت کا ایک معاشی منشور ہوتا ہے۔ یہ معاشی منشور جماعت کی انتخابی مہم اور سیاسی جدوجہد کا عکاس بھی ہوتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور میں معیشت پر پالیسی اور مختلف اہداف کا اعلان کرتی ہیں، مگر ایک ہی سیاسی جماعت میں معیشت کو چلانے کے حوالے سے الگ الگ رائے اور طریقہ کار پایا جائے، ایسا ہونا یقینی طور پر غیر معمولی ہے۔
اس وقت حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) میں 2 معاشی بیانیوں کی گونج ہے۔ ایک طرف موجودہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کی پالیسی ہے جس کو ڈارنامکس کہا جارہا ہے تو اسی پالیسی کے خلاف چند روز قبل وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹائے جانے والے مفتاح اسمٰعیل ہیں۔ ان کے معاشی نظریے کو مفتاح نامکس کا نام دیا جاسکتا ہے۔
بہت بے آبرو ہوکر۔۔۔
مفتاح اسمٰعیل خود کو وزارتِ خزانہ سے ہٹائے جانے کے طریقہ کار پر بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ اپنی تقریر میں مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ان کے وزیر بنتے ہی یہ خبر آگئی تھی کہ اسحٰق ڈار کو وزیرِ خزانہ بنایا جائے گا مگر جب آئی ایم ایف کا پروگرام طے پاگیا تو مفتاح اسمٰعیل کو یہ امید ہوگئی کہ وزیرِاعظم انہیں ہی وزیرِ خزانہ رکھیں گے۔ چونکہ مفتاح اسمٰعیل نہ تو قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور نہ ہی وہ سینیٹر ہیں اس لیے انہیں 6 ماہ بعد وزیر کا عہدہ چھوڑنا ہی تھا۔ تاہم جس انداز سے اسحٰق ڈار نے مفتاح اسمٰعیل کی جگہ لی وہ واقعی آبرومندانہ طریقہ کار نہیں تھا۔
مفتاح اسمٰعیل اور اسحٰق ڈار کے درمیان معاشی پالیسی پر ہی اختلاف نہیں بلکہ یہ بھی محسوس ہوا کہ اسحٰق ڈار اپنی ہی جماعت میں ابھرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کے امیداوار سے خوفزدہ ہیں۔ اسحٰق ڈار نے مفتاح اسمٰعیل کو کُھل کر کام کرنے سے روکا اور ان کی جانب سے کیے جانے والے سخت معاشی فیصلوں پر اس طرح تنقید کی جیسے وہ اپوزیشن جماعت کا حصہ ہوں۔
مسلم لیگ (ن) نے اس مرتبہ جس طرح مفتاح اسمٰعیل اور شہباز شریف کی حکومت کو لندن سے آپریٹ کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ نہ تو وزیرِاعظم شہباز شریف اور نہ ہی سبکدوش ہونے والے وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی۔ مفتاح اسمٰعیل کو فیصلہ سازی میں ہر وقت لندن کی جانب دیکھنا پڑتا تھا اور انہیں جماعت کے اندر سے بھی سخت تنقید کا سامنا تھا۔ میری رائے میں سامنے تو مفتاح اسمٰعیل ہی وزیرِ خزانہ تھے مگر پس پردہ خزانہ کی وزارت اسحٰق ڈار ہی چلا رہے تھے۔
مفتاح اسمٰعیل نے بلاشبہ پاکستان کے مشکل ترین حالات میں وزارتِ خزانہ کو چلایا۔ 2017ء میں جب وہ وزیرِ خزانہ بنے تو اس وقت بھی معیشت کی حالت بہت اچھی نہیں تھی اور 2022ء میں بھی ملک پر نادہندہ ہونے کا خطرہ منڈ لارہا تھا۔ دنیا میں کوئی بھی پاکستان کو قرض دینے کو تیار نہیں تھا اور اسی لیے مفتاح اسمٰعیل ملک کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے بچانے کا سہرا اپنے سر لیتے نظر آتے ہیں۔
ان کے مطابق جب وہ وزیرِ خزانہ بنے تو ملک کے مجموعی زرِمبادلہ ذخائر 10 سے ساڑھے 10 ارب ڈالر تھے جبکہ مالی سال میں 35 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھیں۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا اس لیے درآمدات پر پابندیاں لگا کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور آئی ایم ایف پروگرام بحال کروایا۔ زرِمبادلہ کو بچانے کے لیے انہوں نے اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جن میں درآمدات پر کنٹرول شامل تھا۔ اس سے ملک کو مشکل ترین وقت میں سہارا ملا۔
ڈارنامکس پر مفتاح اسمٰعیل کا اعتراض
مفتاح اسمٰعیل کی جانب سے ڈارنامکس پر پہلا اعتراض اس وقت سامنے آیا جب حکومت نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو عائد کرنے کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جس کو مفتاح اسمٰعیل نے سٹے بازی یا جوا قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جوا کھیلتے ہیں کہ ابھی مراعات دے دو بعد میں دیکھا جائے گا اور ہم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے یہی کیا۔ ابھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم ہوئے 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک نجی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے اسحٰق ڈار کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنے کے عمل کو جوا اور سٹا قرار دے دیا۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ جب وہ آئی ایم ایف سے قرض کی بحالی کے لیے مذاکرات کررہے تھے تو آئی ایم ایف اراکین نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ قرض پروگرام کی بحالی اور قرض کی قسط جاری ہونے کے بعد حکومت ٹیکس نہیں بڑھائے گی، اور ایسا ہی ہوا۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے وفاقی آمدنی بڑھانے کے لیے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی عائد کی جس میں آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق 800 ارب روپے ملنا تھے مگر اسحٰق ڈار کی جانب سے پیٹرولیم کی قیمت کم کیے جانے سے اب 600 سے ساڑھے 600 ارب روپے ہی موصول ہوں گے۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ یہ معاشی فیصلہ ایسا ہے جیسا کہ لاٹری کے ٹکٹ کی خریداری۔ اسی لیے پاکستان کے حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں کہ ابھی سبسڈی دے دو پھر دیکھا جائے گا اور یہی سلسلہ ہر حکومت میں جاری ہے۔
اسحٰق ڈار کیا سوچتے ہیں؟
دوسری طرف موجودہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے مفتاح اسمٰعیل کی اس بات کا بہت بُرا منایا کہ انہوں نے عوامی سطح پر ایسی بات کیوں کی۔ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ انہیں آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے کا پرانا تجربہ ہے اور وہ مفتاح اسمٰعیل کو ایک نہیں 3 ایسے طریقے بتاسکتے ہیں جس سے مفتاح اسمٰعیل آئی ایم ایف کو منا سکتے تھے اور عالمی مالیاتی فنڈ کے حکام بات مان بھی جاتے۔
میری نظر میں اسحٰق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف کو ڈیل کرنے کا تجربہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں بلکہ قابلِ افسوس مقام ہے کہ وہ کتنی مرتبہ آئی ایم ایف میں گئے مگر معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر وہ مفتاح اسمٰعیل کو آئی ایم ایف کے لیے 3 حل بتا سکتے تھے تو یہ حل اس وقت کیوں نہیں بتائے جب مفتاح اسمٰعیل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) اتنی غیر مقبول ہوئی کہ پنجاب سے نہ صرف نشستیں کھو بیٹھی بلکہ ان کے ہاتھ سے صوبائی حکومت بھی نکل گئی۔
روپے کی قدر سے متعلق متضاد پالیسیاں
اسحٰق ڈار ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کو مضبوط کرکے معیشت کو چلانا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے ملک میں کاروباری سرگرمیوں اور ترقی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معاشی پالیسی اسحٰق ڈار نے 1998ء اور 2013ء میں بھی اپنائی جس سے مقامی سطح پر افراطِ زر میں کمی ہوئی۔
سال 2013ء میں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی اور ڈالر کی قدر تیزی سے گرتے ہوئے 111 روپے تک آگئی تو اس پر سیاست کرتے ہوئے شیخ رشید نے بیان دیا تھا کہ اگر ڈالر 100 روپے سے کم ہوگیا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ اس وقت کے معاشی حالات اور ملک میں جاری دہشتگردی کے حالات میں ایسا لگ رہا تھا کہ شیخ رشید کی بات درست ثابت ہوگی اور روپے کی قدر واپس نہیں ہوسکے گی۔ مگر پھر ہم نے دیکھا کہ ڈالر کی قدر 100 روپے سے کم ہوگئی اور شیخ رشید سیاست چھوڑنے کے اعلان سے پھر گئے۔
اس بار بھی اسحٰق ڈار نے وزیرِ خزانہ بننے کے اعلان کے ساتھ ہی روپے کی قدر میں کمی کا اعلان کیا تھا اور ان کے قلمدان سنبھالنے اور پاکستان آمد سے قبل ہی روپے کی قدر میں تیزی سے بہتری ہوئی اور ایک ڈالر جو 239 روپے تک پہنچ گیا تھا وہ تیزی سے کم ہونے لگا۔ جس دوران یہ سطور تحریر کی جارہی تھیں اس وقت ڈالر 219 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس کے باوجود اسحٰق ڈار کا دعویٰ ہے کہ وہ روپے کی قدر کو 200 روپے سے کم کرلیں گے کیونکہ یہی اس کی حقیقی شرح مبادلہ ہے۔ تاہم روپے کی شرح مبادلہ کی مارکیٹ کا انتظام وزارتِ خزانہ براہِ راست نہیں چلاتی ہے بلکہ یہ نظام اسٹیٹ بینک کے ماتحت ہوتا ہے اور روپے کی قدر میں کمی بیشی کا انحصار حکومت سے زیادہ اسٹیٹ بینک کے قابو میں ہوتا ہے۔ اسحٰق ڈار کی روپے کی شرح مبادلہ میں مداخلت دراصل اسٹیٹ بینک کے امور میں مداخلت ہے جس کا بطور وزیرِ خزانہ انہیں اختیار نہیں ہے۔
اسٹیٹ بینک کے معاملات میں مداخلت سے کیا مراد؟
اسحٰق ڈار اس سے قبل بھی اسٹیٹ بینک کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ریاض ریاض الدین کو جب اسٹیٹ بینک کا قائم مقام گورنر تعینات کیا گیا تو انہوں نے پالیسی کے تحت روپے کی قدر میں کمی کی اجازت دی جس پر اسحٰق ڈار نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا اور فوری طور پر طارق باجوہ کو گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا۔
مانیٹری پالیسی بھی خالص گورنر اسٹیٹ بینک کا اختیار ہوتی ہے مگر ماضی میں اسحٰق ڈار گورنر اسٹیٹ بینک سے قبل ہی بنیادی شرح سود کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں جہاں اسحٰق ڈار نے اسٹیٹ بینک کے امور میں مداخلت کی۔ لیکن ڈار صاحب کو اب یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ماضی میں اسٹیٹ بینک خودمختار ادارے کے بجائے وزیرِ خزانہ کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کرتا رہا ہے، لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔
مگر دوسری طرف مفتاح اسمٰعیل کی پالیسی ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پانامہ لیکس کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد جب شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم بنے تو اس دور میں مفتاح اسمٰعیل پہلی مرتبہ وزیرِ خزانہ بنے اور انہوں نے اسحٰق ڈار کی تمام پالیسیوں کو تبدیل کردیا۔ ڈارنامکس کے بجائے مفتاح نامکس کو لاگو کیا گیا جس میں سب سے پہلے روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی اور 105 روپے سے ڈالر کو 122 روپے تک لے گئے۔ تاہم وہ ایسے اقدامات نہ کرسکے جس سے پاکستان کی زرِمبادلہ آمدنی میں اضافہ ہوتا۔
جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور میں روپیہ تیزی سے نیچے جارہا تھا تو اس وقت کے وزیرِ خزانہ اسد عمر سے کراچی پریس کلب میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں جب ان سے ڈالر سے متعلق سوال کیا تو اسد عمر نے بھی روپے کی قدر میں کمی کا بار مفتاح اسمٰعیل پر ڈالتے ہوئے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کا عمل تو مفتاح اسمٰعیل نے شروع کیا تھا۔ یعنی تحریک انصاف کے وزیرِ خزانہ بھی اس بات کا اعتراف کررہے تھے کہ وہ مفتاح نامکس پر عمل کررہے ہیں۔
تجارتی خسارہ کم کرنے کی پالیسیاں
ڈارنامکس اور مفتاح نامکس میں صرف روپے کی قدر کا فرق نہیں ہے بلکہ اسحٰق ڈارکے دور میں ملکی تجارتی خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ان کے دور میں برآمدات اپنی جگہ منجمد رہیں یا پھر ان میں کمی دیکھی گئی جبکہ دوسری طرف ملکی درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسحٰق ڈار نے جن صنعتوں کو پاکستان میں کام کرنے کا لائسنس دیا وہ بھی مقامی کھپت کے لیے تھا۔
اس کے برعکس مفتاح نامکس میں برآمدات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ملک صرف درآمدات کے ساتھ ترقی نہیں کرسکتا ہے بلکہ اس کے لیے ہر ملک کو برآمدات کرنا ہوگی۔ وہ اپنے مؤقف کی تائید میں تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان 80 ارب ڈالر کی درآمدات کو فنانس کرنے کے لیے 60 ارب ڈالر عالمی منڈی سے کماتا ہے۔ اس میں 30 ارب ڈالر کی برآمدات اور 30 ارب ڈالر کی سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ہوتی ہیں۔ اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر ہے جو جی ڈی پی کے 5 فیصد سے زائد ہے۔ اتنے بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کوئی بھی فنانس کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔
پاکستان میں آٹو موبیل کی صنعت کو بہت زیادہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ تحفظ اتنا زیادہ ہے کہ عالمی بینک کے فنڈ سے انسٹیٹوٹ آف ڈیولپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹو نے ایک تحقیق کی جس سے پتہ چلا کے پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان نے اپنے آٹوموبیل سیکٹر کو سب سے زیادہ تحفظ فراہم کیا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کا معیار عالمی سطح کے مقابلے میں کم ہے اور یہ سیکٹر اپنی گاڑیاں برآمد کرنے سے قاصر ہے۔
پاکستان میں گاڑیوں کی مقامی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد ہے اور صرف بیگم اسکیم کے تحت یہ گاڑیاں پاکستان آتی ہیں جن پر ٹیکس اور ڈیوٹی ان کی قیمت کے مساوی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود استعمال شدہ گاڑیاں مقامی اسمبل گاڑیوں سے بہتر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیوٹیز اور اسٹرکچر میں بھی بہت زیادہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
اسی طرح موبائل ہینڈ سیٹس کی اسمبلی لائن لگانے کے لیے بھی تحفظ فراہم کیا گیا اور بیرون ملک سے استعمال شدہ یا نئے موبائل فونز پاکستان لانے پر بھاری ڈیوٹیز عائد ہیں، مگر جس قدر انہیں تحفظ دیا گیا ہے اس کے مساوی مقامی سطح پر پرزہ جات تیار نہیں کیے جارہے اور موبائل فونز مارکیٹ میں کم قیمت پر فروخت نہیں ہورہے۔
تحفظ دینے سے کیا مراد ہے؟
کسی بھی صنعت کو تحفظ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس صنعت کو کُھلے مقابلے کے لیے نہ چھوڑا جائے اور اگر اس کے مقابل کوئی کمپنی اپنی مصنوعات بیرونِ ملک سے فروخت کرنا چاہے تو اس کو ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے، اور یہ ٹیرف رکاوٹیں کسٹم ڈیوٹی, ٹیکس اور دیگر وصولیوں کی صورت ہوسکتی ہیں۔ جبکہ نان ٹیرف بیریئر میں پورٹ سے سامان کو چھوڑنے میں تاخیر، مختلف ریاستی اداروں سے اجازت نامے اور درآمد پر ریاستی اداروں کا معائنہ وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں۔
اس تحفظ کی بنیاد پر متعلقہ صنعت کو ملک کے اندر اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے تقریباً اجارہ داری حاصل ہوجاتی یے۔ جس کی وجہ سے ان صنعتوں میں اپنی کارکردگی یا صلاحیت اور معیار کو بہتر کرنے کی ترغیب ختم ہوجاتی ہے
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ جو بھی کمپنیاں پاکستان میں لگ رہی ہیں اور مقامی مارکیٹ میں اپنا مال فروخت کرنا چاہتی ہیں وہ تحفظ مانگتی ہیں۔ گاڑیوں کی صنعت کو پاکستان میں 500 فیصد تک تحفظ حاصل ہے جبکہ موبائل فون کی صنعت کو بھی بھاری تحفظ دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں صنعتیں مقامی سطح پر پرزہ جات بنانے کی کوشش نہیں کررہی ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ جس قدر مقامی صنعت کو تحفظ دیا جاتا ہے ان کی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے اور وہ عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل نہیں رہتی۔ مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ میں ان تمام مقامی کمپنیوں پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز دی تھی جو اپنی مصنوعات کو برآمد نہیں کرتیں، مگر انہیں اس کی اجازت نہیں مل سکی۔
ایمنسٹی اسکیم سے متعلق دونوں میں کیا اختلاف ہے؟
ڈارنامکس میں کسی بھی ایمنسٹی کی گنجائش نہیں ہے۔ 2016ء اور 2017ء میں متعدد کاروباری تنظیموں نے اسحٰق ڈار سے اثاثے ظاہر کرنے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا مطالبہ کیا مگر اسحٰق ڈار نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دوگنے ٹیکس کے حوالے سے متعدد ملکوں سے معاہدہ کرلیا ہے اور اس کی تفصیل جلد ملنے لگیں گی اور وہ پھر جرمانے کے ساتھ یہ رقم وصول کریں گے۔
مگر مفتاح اسمٰعیل نے 2017ء میں وزیرِ خزانہ بنتے ہی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کردیا۔ اس اسکیم پر پی ٹی آئی نے سخت ردِعمل کا اظہار کیا جس کی وجہ سے توقع کے مطابق نتائج نہیں ملے۔ مگر جب پی ٹی آئی کی اپنی حکومت قائم ہوئی تو اس نے نہ صرف ٹیکس ایمنسٹی اسکیم دی بلکہ حکومت کے اختتام تک پراپرٹی سیکٹر میں ایمنسٹی دیے رکھی۔ اس کی وجہ سے پراپرٹی میں لوگوں نے کئی گنا منافع کمایا۔
دونوں میں مشترک کیا ہے؟
مفتاح نامکس اور ڈارنامکس میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں ملک میں پراپرٹی کے کاروبار کو دستاویزی بنانے کے لیے کام کرتے رہے۔ اسحٰق ڈار نے پراپرٹی کے کاروبار کو دستاویزی کرنے اور ٹیکس ریٹ بڑھانے کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ٹیبل متعارف کرایا اور صوبوں سے بھی کہا کہ وہ اپنے ٹیرف پر نظرثانی کریں۔
اس ٹیبل کے آنے پر پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ افراد نے بہت شور مچایا۔ اسی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے پراپرٹی بائے بیک بیورو بنانے کے لیے مالی سال 19ء-2018ء کے بجٹ میں اعلان کیا تھا مگر اس اعلان پر پاکستان تحریک انصاف نے عمل نہیں کیا اور یہ بائے بیک ادارہ بنانے کا عمل ختم کردیا۔
نتیجہ
اس پوری صورتحال کو سمجھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں معیشت کے حوالے سے 2 الگ الگ رجحان اور نظریے پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں نظریات کے ہوتے ہوئے اس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور جماعت میں 2 رائے پائی جاتی ہیں۔ اکثریت اسحٰق ڈار کے ساتھ نظر آتی ہے مگر کچھ سینئر رہنما جیسا کہ خواجہ آصف اور شاید وزیرِاعظم شہباز شریف بھی مفتاح اسمٰعیل کی حمایت کرتے نظر آئے ہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔