پاکستان

جنرل باجوہ کا دورۂ امریکا تعلقات کی بحالی کی کوشش قرار

عالمی میڈیا کے برعکس پاکستانی میڈیا نے اس دورے کے ملک کی اندرونی سیاست پر ممکنہ اثرات پر زیادہ دلچسپی ظاہر کی، رپورٹ

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ امریکا کے 5 روزہ دورے کے بعد بدھ کی شام وطن روانہ ہو گئے، دورے کو بین الاقوامی میڈیا پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں سے تعبیر کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہاں بین الاقوامی میڈیا نے پاکستان امریکا تعلقات، بھارت پاکستان اور پاک چین تعلقات جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی، پاکستان کے میڈیا نے اس دورے کے ملک کی اندرونی سیاست پر ممکنہ اثرات پر زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔

ایک اور مسئلہ جو توجہ کا مرکز تھا وہ اس دورے کا وقت تھا، بہت سے لوگوں نے سوال کیا کہ آرمی چیف اپنے دور ملازمت کے اختتام پر واشنگٹن کیوں گئے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلح افواج سیاست سے دور رہیں گی، جنرل قمر جاوید باجوہ

تمنا سالک الدین جنہوں نے امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں اپنے جنوبی ایشیائی پروگرام کے سربراہ کے طور پر شامل ہونے سے پہلے 12 سال تک محکمہ خارجہ اور امریکی قومی سلامتی کونسل کے لیے کام کیا، دورے کے وقت کے بارے میں قیاس آرائیوں سے متفق نہیں ہیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’پاکستان میں لوگ کچھ سگنلز تلاش کررہے ہیں، کچھ نقطوں کو ملانے کی کوشش کررہے ہیں جو وہاں نہیں ہیں‘۔

تمنا سالک کا مزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ایک طویل عرصے سے منصوبہ بندی کردہ دورہ تھا اور اس دورے میں کافی تاخیر ہوئی، جسے کئی بار شیڈول اور ری شیڈول کیا گیا تھا۔

پاکستان میں میڈیا کی قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس دورے کا ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے کوئی تعلق ہے۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کی اقوام متحدہ کے ملٹری ایڈوائزر سے ملاقات، علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی انتظامیہ میں کوئی بھی مدت ملازمت میں توسیع کی توثیق یا اس سے انکار نہیں کرے گا، بالکل نہیں، پاکستان میں سازشی نظریات بہت اچھی طرح بکتے ہیں لیکن یہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔

ولسن سینٹر واشنگٹن کے مائیکل کوگلمین نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ’پاکستان کے آرمی چیف کے طور پر ان کی آخری مدت کے آخری چند ہفتوں کے دوران‘ آئے تھے لیکن انہوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سفر کو نہ صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو بڑھانے میں مدد کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے بلکہ ان کی اپنی روایت کی تعمیر میں مدد بھی مل سکتی ہے، کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔‘

واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماروین وینبام نے پاکستان میں ہر چیز کو ملکی سیاست سے منسلک کرنے کے رجحان پر افسوس کا **اظہار کیا۔’

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پینٹاگون میں اعزازی کارڈن حاصل کریں گے

انہوں نے لکھا کہہ ’پاکستان کے انسانی اور معاشی دہرے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے جس اتحاد کی ضرورت ہے، اس کی جگہ محاذ آرائی کی سیاست ہمیشہ کی طرح جاری ہے۔‘

الجزیرہ نے اس دورے سے متعلق اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جولائی میں شروع ہوئی تھیں اور اس کے بعد سے کئی سینئر امریکی حکام اور کانگریس کے ارکان سیلاب کے بعد ملک کا دورہ کر چکے ہیں۔

اب تک امریکا نے ٌاکستان کو 6 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی امداد بھی فراہم کی ہے۔

موڈیز کی کریڈٹ ریٹنگ میں پاکستان کی مزید تنزلی

سیلاب سے 90 لاکھ تک پاکستانی غربت کا شکار ہونے کا خدشہ ہے، ورلڈ بینک

اسمبلی میں کسی صورت واپس نہیں جائیں گے، عمران خان