سیلاب سے 90 لاکھ تک پاکستانی غربت کا شکار ہونے کا خدشہ ہے، ورلڈ بینک
ورلڈ بینک خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں مون سون سے آنے والے سیلاب سے پاکستان کے 60 لاکھ سے 90 لاکھ تک شہری غربت میں چلے جاسکتے ہیں۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک نے رواں برس مون سون بارشوں کے دوران آنے والے سیلاب سے پیدا بحران کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔
پاکستان میں رواں برس غیرمتوقع مون سون بارشوں سے تباہی ہوئی تھی، جس سے ایک ہزار 700 افراد جاں بحق، 20 لاکھ گھر تباہ ہوئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا۔
سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے 80 لاکھ عوام بدستور بے گھر ہیں اور خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں اور سیلاب کے کھڑے پانی کے کنارے کیمپ لگائے ہوئے جہاں ان کے مویشی اور دیگر اشیا تباہ ہوچکی ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں 2.5 فیصد سے4 فیصد پوائنٹس میں اضافے کا خدشہ جو براہ راست سیلاب کے اثرات ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ روزگار چھوٹ جانا، فصلیں، گھروں کی تباہی، اسکولوں کی بندش کے ساتھ بیماریوں کے پھیلاؤ اور غذائی اجزا کی قیمتوں میں اضافے سے غریبوں کی تعداد میں 58 لاکھ سے 90 لاکھ کے درمیان اضافے کا خطرہ ہے۔
ورلڈ بینک نے کہا کہ ان منفی معاشی اور سماجی اثرات کے خاتمے کے لیے بڑا وقت لگے گا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 22 کروڑ آبادی کے حامل ملک میں پہلے 20 آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی سے قبل ہی شدید مسائل تھے، جہاں مہنگائی، روپے کی قدر میں بدترین تنزلی اور بیرونی ذخائر میں کمی کا سامنا تھا۔
ورلڈ بینک نے کہا کہ ملک میں مالی سال 2023 کے لیے مہنگائی کی شرح 23 فیصد رہے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان کا دنیا میں گرین ہاؤسز گیس کے اخراج کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے باعث پڑنے والی بدترین اثرات کا حامل ملکوں میں سے ایک ہے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ بدترین موسمی اثرات مزید عام ہورہے ہیں اور انسانوں کے پیدا بحران کے نتیجے میں مزید مسائل ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اس حوالے سے امیر اور کاربن کے اخراج کے بڑے ذمہ دار صنعتی ممالک سے مطالبہ کر چکا ہے وہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے باہر نکلنے کے لیے زیادہ امداد دیں۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ مناسب پیکیج دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ضرورت مند شہریوں کو مناسب سرمایہ فراہم کرسکیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم زندگیاں بچانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں اور ابھی منزل بہت دور ہے۔