نقطہ نظر

8 اکتوبر کا زلزلہ اور حالیہ سیلاب: ہمیں کیا سیکھنا چاہیے؟

پانی ان مصیبت زدہ لوگوں کا سب کچھ بہا کرلے گیا ہے، اب ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے، کچھ رشتے ہیں، اور عزت ہے جسے یقیناً وہ کھونا نہیں چاہیں گے۔

پاکستان کا ایک چوتھائی رقبہ اس وقت سیلاب سے متاثر ہے۔ خاص طور پر سندھ میں لوگ گھروں سے محروم ہوگئے اور بے سروسامانی کی حالت میں سڑک پر آگئے ہیں۔ خدا کی مخلوق گاؤں اور شہروں سے نکل کر حکومت اور فلاحی اداروں کے قائم کردہ عارضی کیمپوں میں جیسی تیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ انسانی المیے جنم لے رہے ہیں اور کہانیاں بن رہی ہیں۔

اسی مشکل اور تکلیف دہ صورت حال میں جہاں دیگر سماجی المیے سامنے آرہے ہیں وہاں بے گھر لوگوں کو غیر محفوظ ہونے کا سامنا بھی ہے۔ یہ مسئلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ممکنہ طور پر ان متاثرین کو اپنی معمول کی زندگیاں شروع کرنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے اور انہیں ایک طویل عرصہ کیمپوں میں بسر کرنا پڑے گا، یوں خواتین اور بچوں کے اغوا اور ہراسانی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

حالیہ سیلاب کے بعد متاثرین سے متعلق 2 اہم خبریں

2 ستمبر کو ایک خبر سانگھڑ کے ضلع شہدادپور سے آئی جس کے مطابق سیلاب زدہ علاقے کی 14 سالہ لڑکی کو مبیّنہ طور پر راشن کے نام پر 3 دن تک زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ملزم رکشا ڈرائیور اور اس کے ساتھی کو بعد میں پولیس نے پکڑ کر مقدمہ درج کرلیا۔

15 ستمبر کو دنیا اخبار میں شائع تصویر نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچی، جس میں لاڑکانہ کا ایک محنت کش باپ اپنے 2 چھوٹے بچوں کو کندھے پر بٹھاکر انہیں بیچنے کی صدا لگا رہا تھا۔

اس تصویر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنے والے لاڑکانہ کے مقامی صحافی طارق درانی تھے۔ رابطہ کرنے پر انہوں نے اس درد بھری تصویر کی کہانی بتائی کہ ’تصویر میں نظر آنے والے صاحب کا نام نورل چانڈیو ہے، یہ صاحب لاڑکانہ پریس کلب میں اپنے بچوں کو بیچنے کی صدائیں لگا رہے تھے۔ نورل چانڈیو کا تعلق قطب کالونی سے ہے۔ ان کا گھر حالیہ بارشوں کی نذر ہوا جس کی وجہ سے وہ رائیس کینال کے باہر بچوں سمیت کُھلے آسمان تلے راتیں گزار رہے ہیں۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود انہیں نہ تو خیمہ ملا اور نہ ہی راشن۔ اس لیے وہ اپنے 3 معصوم بچوں کو بیچنے کے لیے لاڑکانہ پریس کلب پہنچے جہاں اپنے بچوں کو بیچ کر راشن اور ٹینٹ فراہم کرنے کی صدائیں لگائیں‘۔

نورل چانڈیو سے جب ہم نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تاحال مجھے راشن، ٹینٹ اور سامان فراہم نہیں کیا گیا۔ جس کے باعث میرے بچے 3 دن سے بھوکے ہیں۔ غربت سے تنگ آکر اپنے تینوں بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوں‘۔

طارق درانی کہتے ہیں کہ ’نورل کی خبریں تو چینلز اور اخبارات کی زینت بنیں مگر اس کے باوجود تاحال اسے کوئی سرکاری امداد میسر نہیں آسکی ہے۔ نورل جیسے لاکھوں افراد اب بھی شدید گرمی میں راستوں پر بیٹھے ہیں اور حکومت سے 2 وقت کا کھانا، خیمہ، بچوں کا دودھ اور دوائیں مانگتے ہوئے نظر آرہے ہیں‘۔

یہ خبریں عام دنوں میں آتیں تو بھی اہم تھیں لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں اس طرح کی خبریں اس لیے چونکا دیتی ہیں کہ ان قدرتی حادثات اور افراتفری میں اغوا کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید ایک گائنا کالوجسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب بھی ہیں۔ ان کی کہانیاں افسانوی شکل میں ضرور ہوتی ہیں لیکن یہ کہانیاں حقیقی کرداروں کے گرد گھومتی ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید 2008ء میں کشمیر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ہم نے دیکھا کہ اس زلزلے کے ابتدائی ہفتوں میں ہی ایسی کہانیاں منظرِعام پر آنے لگی تھیں کہ بچے اور خواتین غائب ہو رہی ہیں۔ اکثر لوگوں کو راشن یا دیگر چیزوں کا کہہ کر لوگ اپنے ساتھ لے گئے تھے‘۔

انہوں نے فون پر بتایا کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب شمالی علاقات جات میں زلزلہ آیا تو بے شمار افراد اس کا شکار ہوئے، ہزاروں اموات ہوئیں اور بڑے بڑے شہر زمیں بوس ہوگئے تھے۔ مثال کے طور پر بالاکوٹ کا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ ہم ڈاکٹرز، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور عبدالستار ایدھی صاحب وہاں سب سے پہلے پہنچے۔ ہمارے اگلے 6 ماہ وہیں گزرے اور وہاں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ کافی افسوسناک تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مظفرآباد کا راستہ مکمل طور پر بند تھا اور امدادی سامان وہاں پہنچ نہیں پارہا تھا۔ بڑی مشکلات سے راستہ کھلا اور ہم ڈاکٹر وہاں پہنچے۔ کئی دن گزر جانے کی وجہ سے ملبے کے نیچے پھنسی ہوئی لاشوں میں سے بدبو آنا شروع ہوچکی تھی۔ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ باہر سے آئے لوگوں نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوٹ مار کی، متعدد بچوں کے اغوا کے واقعات بھی ہوئے، ہرطرف ایک افراتفری تھی۔ پھر جب ہمارا کام شروع ہوگیا تو ہم کبھی ایک اسپتال میں ہوتے اور کبھی کسی دُور دراز مقام پر دوسرے اسپتال پر۔

’مانسہرہ کے ’کے بی ڈی او‘ اسپتال کو بھی سینٹر بنایا ہوا تھا لیکن مریضوں کو ان کی ضرورت اور ہنگامی آپریشن کے لیے آگے ایبٹ آباد بھیجا جارہا تھا کیونکہ مانسہرہ میں آپریشن کی گنجائش نہیں تھی۔ اسی دوران خاص کر یہ خبریں آئیں کہ جن مریضوں کے والدین یا گھر کے بڑے ہلاک ہوگئے تھے ان کے بچے خاص کر لڑکیاں اور بچے غائب ہونے لگے، مگر پولیس اور انتظامیہ کو اس کی روک تھام اور اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے میں 6 ہفتے لگ گئے۔ فیصلہ کیا گیا کہ عارضی اسکولوں سے بچوں کو صرف والدین کے حوالے کیا جائے گا اور والدین کو بھی کسی بچے کو علاقے سے باہر لے جانے کے لیے کوئی ثبوت مہیا کرنا ہوگا۔

’سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ خواتین کا استحصال ہوا جس میں ان کی خرید و فروخت، زبردستی کی شادیاں اور ان کو بظاہر گود لینا شامل تھا۔ اب حالیہ سیلاب میں بھی مجھے اپنی ٹیم سے تصدیق شدہ معلومات ملی ہیں کہ سڑکوں پر بیٹھی ہوئیں خواتین کو ہراساں کیا جارہا ہے اور کہیں کہیں سے جنسی استحصال کی بھی خبریں آئیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق انہیں سیلاب متاثرین بتارہے ہیں کہ مرد سامان لینے اور دیگر کاموں سے نکلتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں کچھ انجان افراد آجاتے ہیں اور انہیں سامان اور راشن کا کہتے ہیں اور اپنے ساتھ لے جانے کی باتیں کرتے ہیں۔‘

کشمیر کا زلزلہ اور انسانی اسمگلنگ: صحافی کیا کہتے ہیں؟

جلال الدین مغل کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور آج کل اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ 2008ء کے زلزلے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’خاص کر مظفرآباد میں بچوں کو اٹھا کر لے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کا آج تک کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کے عزیز و اقارب زندہ تھے لیکن کوئی بندہ انہیں اٹھا کر لے گیا۔ یہ بھی رپورٹ ہوا کہ بہت سے لوگوں کو ہیلی کاپٹر سے لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا لیکن جب خاندان وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ اسپتال کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں کہ وہ لوگ مرگئے یا ان کو کہیں اور منتقل کردیا گیا‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اسی طرح جو بچے گود لیے گئے ان کا تو پھر بھی کچھ ریکارڈ ہے لیکن جو لوگ غائب ہوئے اور گم ہوگئے ان کا سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا گیا۔ خاندان بکھر گئے تھے اور بچھڑ جانے والوں کو تلاش کرنا ایک مشکل امر تھا، کون کہاں تک پیچھے بھاگتا‘۔

جلال سمجھتے ہیں کہ ’اس وقت ان واقعات کو اس طرح رپورٹ بھی نہیں کیا گیا جس طرح ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس وقت مسائل ہی الگ تھے۔ کسی مقامی اخبار میں کوئی خبر آگئی تو آگئی، بڑے اخبارات میں تو اسے اہم خبر ہی نہیں سمجھا گیا۔ ریپ کے بھی واقعات ہوئے کچھ این جی اوز پر الزام بھی لگا کہ انہوں نے خواتین کو غائب کردیا۔ 2019ء میں جب میرپور میں زلزلہ آیا تو اس وقت بھی خواتین خاص کر نوجوان بچیوں کو اپنی عزت جانے کا خوف ہوتا تھا‘۔

ڈان کے سینیئر صحافی قاضی حسن نے کشمیر میں آنے والے زلزلے کو کور کیا تھا۔ ان کے مطابق ’2008ء میں انسانی اسمگلنگ کی خبریں ضرور آئی تھیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر یا منظم کام نہیں تھا۔ ان کے خیال میں چند واقعات ہوں گے لیکن انہیں باقاعدہ رپورٹ اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس وقت بہت بڑے انسانی المیے جنم لے چکے تھے۔ سب کی اوّلین ترجیح انسانی جان بچانا اور واپس زندگی کو رواں دواں کرنا تھا‘۔

انہیں یاد ہے کہ جن بچوں کے خاندان کا کوئی نہیں بچا تھا انہیں بہت سے خاندانوں نے گود لے لیا۔ وہ آج بھی ان خاندانوں کو جانتے ہیں۔ وہ بچے آج کراچی میں اپنے نئے گھروں میں اچھے طریقے سے پل رہے ہیں۔

یہ بات جلال الدین بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی ایک بچی کو جانتے ہیں جس کا سارا خاندان زلزلے میں ختم ہوگیا تھا اور اسے ایک امریکی پاکستانی خاندان نے گود لیا۔ اس بچی کی ٹانگیں کٹ گئی تھیں اور اسے مصنوعی ٹانگیں لگائی گئی تھیں۔ لیکن ساتھ وہ بھی کہتے ہیں کہ گود لینے والے بچوں یا وہ گمشدہ بچے اور خواتین جن کے بارے میں ان کے گھر والے دعویٰ کرتے تھے کہ وہ زندہ ہیں، ان کی کوئی معلومات سرکاری کاغذات میں موجود نہیں جسے لازمی ریکارڈ کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ قاضی حسن کہتے ہیں کہ یہ خود ایک خبر ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔

حالیہ سیلاب میں حفاظتی حکمتِ عملی

صحافی طارق درانی کے مطابق ’حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سندھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ جن میں سے کچھ لاکھ افراد (کُل متاثرین کا زیادہ سے زیادہ 15 فیصد تک) کو حکومتِ سندھ کی جانب سے اسکولوں اور دیگر عمارتوں میں کیمپ یا ٹینٹ سٹی قائم کرکے رکھا گیا ہے مگر متاثرین کی بہت بڑی تعداد سڑکوں، راستوں اور ہائی ویز پر اپنی مدد آپ کے تحت رہائش پذیر ہے‘۔

وہ حفاظتی نقطہ نظر، اغوا کی وارداتوں اور انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’بارشوں اور سیلاب کی حالیہ ہنگامی صورتحال میں خواتین اور خاص طور پر لڑکیاں شدید پریشانیوں کا شکار ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین آج بھی پردہ کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حالیہ صورتحال میں کیمپوں اور سڑکوں پرموجود خواتین اور بچیاں پردہ نہ ہونے کی سب سے زیادہ شکایات کرتی ہیں۔ اسکولوں میں قائم ریلیف کیمپوں میں گنتی کے واش روم ہوتے ہیں اور وہاں سیکڑوں افراد کو رکھا گیا ہے۔ وہ الگ الگ خاندانوں اور دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جس سے انہیں بے پردگی سمیت دیگر دشواریاں پیش آرہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’حاملہ خواتین ہوں یا بچیاں، انہیں درپیش مسائل یا ماہواری کے حوالے سے کوئی بھی طبّی سہولت ریلیف کیمپوں میں موجود نہیں۔ اسی طرح سڑکوں اور راستوں پر بیٹھی خواتین اور بچیوں کو واش رومز تک میسر نہیں۔ وہ قریب آبادی میں واقع زرعی زمینوں یا ویران علاقوں کو رفع حاجت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اسی طرح ہائی ویز اور راستوں پر بیٹھے خاندان، جن کو خیمے میسر نہیں، وہاں اوباش نوجوانوں کی جانب سے انہیں تنگ کرنے کی شکایات بھی موصول ہورہی ہیں۔ تاہم ایسی شکایات اور تکلیفوں کا ازالہ ہوتا نظر نہیں آرہا‘۔

پولیس اور انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

ڈی آئی جی سیکیورٹی سندھ، مقصود میمن اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر ان کا کام ہائی پروفائل لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے لیکن انہوں نے کراچی میں موجود سیلاب متاثرین کو سیکیورٹی مہیا کی ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اغوا اور انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے سندھ پولیس نے دیگر حفاظتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ پولیس اہلکار سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں کو نکالنے سے لے کر ان کے کیمپوں اور کھانے کے انتظامات میں مصروف ہیں۔ سندھ پولیس سڑکوں کو کھولنے اور دیگر انتظامی امور بھی انجام دے رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انتظامی طور پر سندھ پولیس چوکس ہے۔ لوگ سڑکوں پر ضرور ہیں لیکن پہلے کی نسبت زیادہ آگاہ ہیں اس وجہ سے بھی ایک دو واقعات کے علاوہ کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

عرفان بلوچ، ڈی آئی جی شہید بے نظیر آباد ہیں۔ انہوں نے شہدادپور میں بچی کو 3 دن تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے والے ملزمان کو بروقت پکڑا اور مقدمہ قائم کیا۔ عرفان صاحب کا خاص طور پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’جیسے ہی ہمیں بچی کے خاندان کی طرف سے اطلاع ملی تو ہم نے بروقت کارروائی کی۔ ملزمان زیادہ دُور نہیں تھے، بنیادی مجرم رکشا ڈرائیور گل شیر ماچھی اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرکے مقدمہ قائم کرلیا گیا ہے‘۔

عرفان صاحب کا سیلاب زدگان کی حفاظت کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’اس واقعے کے بعد ہم نے ایک واضح حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ کیونکہ لوگ کافی عرصے سے سڑکوں پر موجود ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کہ ابھی انہیں گھروں تک لوٹنے میں وقت لگے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ فوری حکمتِ عملی اپناتے ہوئے ایک ’وکٹم سپورٹ یونٹ‘ تشکیل دیا جائے۔ جہاں لوگ اس طرح کے جرائم کو باآسانی رپورٹ کرسکیں۔ انہوں نے یہ یونٹ اپنی مقررہ حدود میں قائم کردیا ہے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ ’اس وقت اغوا، انسانی اسمگلنگ اور حفاظتی امور پر آگاہی دینا بہت ضروری ہے۔ خاص کر این جی اوز اور فیلڈ میں کام کرنے والے افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گھر کی خواتین اور بچوں کو ہوشیار کریں کہ کیا خطرات ہوسکتے ہیں، کن لوگوں سے دُور رہنا چاہیے اور یہ کہ شکایت کی صورت میں اپنے بڑوں کو بروقت آگاہ کرنا ضروری ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نمبر فراہم کیا ہوا ہے کہ اگر ایف آئی آر درج کروانے میں مشکلات ہوں یا پولیس کا برتاؤ درست نہ ہو تو ان نمبروں پررابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ان تمام باتوں کو جاننے اور سمجھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ سیلاب زدگان کی زندگی بھی وقت کے ساتھ لوٹ ہی آئے گی اور وقت کئی زخموں پر مرہم بھی رکھ دے گا لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جو واقعات ہوگئے ہیں ان کی تعداد کو بڑھنے نہ دیا جائے۔ پہلے ہی پانی ان مصیبت زدہ لوگوں کا سب کچھ بہا کرلے گیا ہے، اب ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے، کچھ رشتے ہیں، کچھ اپنے ہیں اور عزت ہے جسے یقیناً وہ کھونا نہیں چاہیں گے۔

پولیس اور انتظامیہ سے بات کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ صوبائی اور مرکزی سطح پر اس حوالے سے کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں اپنائی گئی، نہ کوئی ہیلپ لائن نمبر جاری کیا گیا اور نہ ہی کوئی محکمہ اور ٹیم اس پر معمور کی گئی۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔