سیاست اور الیکشن ہوتے رہیں گے، ترجیح سیلاب متاثرین کی مدد ہے، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں سیلاب سے تباہی کے باوجود لانگ مارچ کی تیاریوں پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست اور الیکشن ہوتے رہیں گے، سیاسی مقابلہ بھی ہوگا لیکن ابھی ترجیح سیلاب متاثرین کی مدد ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سیلاب کی تباہی اب تک ختم نہیں ہوئی، بلوچستان کے پہاڑوں سے پانی سندھ میں داخل ہو رہا ہے، جتنے علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے ان میں سے 50 فیصد سے پانی نکالا جاچکا ہے جبکہ 50 فیصد بدستور زیر آب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کے بعد سوشل میڈیا پر بھی وزیر خارجہ، بلاول کی لفظی جنگ
انہوں نے کہا کہ سندھ میں سڑکوں کے دونوں جانب سمندر ہی سمندر ہے، یہ ایک تاریخی قدرتی آفت ہے، پاکستان میں سیلابی صورتحال کی مثال قیامت سے پہلے قیامت جیسی ہے، سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جو دنیا کے کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے بڑی تعداد ہے، ہمیں عالمی برادری سے مدد مل رہی ہے لیکن متاثرین کی تعداد، وسائل اور مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ہم جتنی بھی محنت کرلیں، وہ کم ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ کورونا کے دوران پاکستانی معیشت جتنی تباہ ہوئی اُس سے کہیں زیادہ حالیہ سیلاب کے باعث معیشت پر اثر پڑا، پاکستان کی معیشت کو بہت سے مشکلات درپیش ہیں، ملک کی 40 لاکھ ایکڑ زمین اور کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو صحت کے مسائل سے دوچار دوسرا بڑا ملک قرار دیا ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر سیلاب سے ہسپتال اور ڈاکٹرز متاثر نہ ہوتے پھر بھی تمام ہسپتال ان مریضوں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے تھے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 10 فیصد ہسپتال سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہم مل کر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے نمٹ سکتےہیں، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ نے اعدادوشمار بتاتے ہوئے کہا کہ سندھ کے 38 لاکھ لوگوں کا طبی علاج ہو چکا ہے، ہم ماحولیاتی آلودگی، غذائی قلت، معاشی اور زرعی شعبوں کے مسائل پر کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ پانی کی نکاسی جلد از جلد مکمل کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، جنوبی پنجاب میں پانی کی سطح کافی حد تک کم ہوچکی ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو سیلاب سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
'یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں'
بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف پاکستان سیلاب سے تباہی کا شکار ہے اور دوسری جانب کچھ لوگ اپنی سیاست چمکانے میں مصروف رہیں، ایک ملک میں ہوتے ہوئے ایک ہوکر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے معاشی قتل کا مجرم عمران نیازی آزاد ہے اور دوسروں پر الزامات لگا رہا ہے، بلاول بھٹو
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سیلابی صورتحال میں ہر صوبوں کے دورے کیے، انہییں عوام کے دکھ، درد اور تکلیف کا اندازہ ہے، شہباز شریف نے سب سے زیادہ سندھ کے دورے کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے لیے لوگ تیار ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ عوام کی توجہ سیلاب سے ہٹ کر ان کی سیاست کی طرف ہو۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ کون ہمیں ووٹ دے گا اور کون نہیں دے گا، سیاست کو پیچھے چھوڑ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عوام کی مدد کرنی چاہیے۔
'عوام زندہ ہوں گے تبھی ہم سیاست کر سکیں گے'
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے قدرتی آفت میں ہمیشہ ایک ہو کر کام کیا ہے، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب زلزلہ آیا تو ہم نے لانگ مارچ نہیں کیا، 2010 اور 2011 کے تاریخی سیلاب میں پیپلز پارٹی نے ایک ہوکر مقابلہ کیا لیکن 2022 کا سیلاب پچھلے تمام سیلابوں سے 10 گنا زیادہ خطرناک ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سیاسی مقابلہ بھی ہوگا لیکن ابھی ترجیحات سیلاب متاثرین کی مدد ہے، سیاست اور الیکشن ہوتے رہیں گے، عوام زندہ رہیں گے تبھی ہم سیاست کرسکیں گے، عوام نے پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑے مسائل دیکھے اور ان مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
'دنیا سے بھیگ نہیں انصاف چاہیے'
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس وقت تمام مقامی اور عالمی ادارے نقصان کا ازالہ کرنے کے کی کوشش کر رہے ہیں، امیر ممالک نے اپنے ملک کو مزید امیر بنا کر پوری دنیا کو نقصان پہنچایا ہے اور ان نقصانات کا بوجھ پاکستانی عوام اٹھا رہے ہیں، ہم دنیا سے بھیک نہیں بلکہ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا میں موجود بلاول بھٹو کا عمران خان کے دورۂ ماسکو کا دفاع
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مصروفیت کے باعث پاکستان کا دورہ کیا، سیکریٹری جنرل نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دنیا میں ایسی تباہی کہیں نہیں دیکھی جتنی پاکستان میں ہوئی ہے، جنرل اسمبلی میں امریکا اور دیگر ممالک کے سربراہان نے پاکستان میں سیلاب سے تباہی کے حوالے سے دنیا کو آگاہ کیا، ہم نے اقوام متحدہ میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو ہر سطح پر مدد کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی سے مستقبل میں بچنے کے لیے منصوبہ بنایا جائے گا، ہم بلوچستان، پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے کام کریں گے، ہم نے طے کیا ہے کہ رواں سال نومبر کے آخر میں نئی فصل کھڑی کریں گے، یہ کام شاید ممکن نہ ہو لیکن ہم اپنی پوری کوشش کریں، چھوٹے کسانوں کے لیے یہ کام انتہائی ضروری ہے۔
'عمران خان چندہ چور ہے'
وزیر خارجہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو الزامات لگانے کی عادت ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں سیلاب متاثرین سے امداد اور چندہ چوری کرنے کا الزام عمران خان کے سوا کسی پر نہیں لگا، امریکی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کے صحافی نے عمران خان پر لگے الزامات ثابت کردیے کہ وہ چندہ چور ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو انسان خود چندہ چور ہے، وہ ہر جگہ جلسے جلوسوں میں حکومت پر چندہ چوری کا الزام لگا رہا ہے، فارن فنڈنگ لینے والا چندہ چور دوسروں پر الزام لگاتا رہا، عمران خان اپنی پیرنی کو جتنے زیور لے کر دیتے ہیں وہ دوسروں پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں، انہوں نے اپنی حکومت میں اپنا گھر ریگولرائز کیا اور دوسروں کے گھر گرائے، عوام کی یاداشت اتنی کمزور نہیں کہ پچھلے 4 سالوں میں جو ہوا وہ 4 ماہ میں بھول جائیں گے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان کا طریقہ کار یہ ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ کچھ نہ کچھ تو لوگ مانیں گے۔
مزید پڑھیں: ’قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پاکستان معاوضہ نہیں، ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے‘
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنی اَنا کی وجہ سے 4 سالوں میں ناصرف یورپ اور مغربی ممالک بلکہ عرب ممالک اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو نقصان پہنچا، ان کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے عوام نے نقصان برداشت کیا، ہم نے حکومت میں آکر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر اور ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ خود کو قوم پرست کہنے والے ہر قدرتی آفت میں سیاست آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہتے ہیں ڈوبے نہیں ڈبایا گیا یہ حقیقت نہیں بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے۔