دائی کی سلائی !
درزی حیران ہوکر پوچھتا ہے، آپ کو کپڑا کاٹنے کی اتنی ترکیبیں کیسے آتی ہیں؟ کیا سلائی کڑھائی کا کورس کر رکھا ہے؟
گلا اس طرح سے کاٹو، معاف کیجیے گا قمیض کا گلا۔ کندھے کی گولائی سے لے کر چھتیس کلیوں والے کرتے کی ترکیب تک۔
ہم ہنس پڑتے ہیں۔
کیسے بتائیں کہ قینچی سے کپڑا کاٹنا کس قدر آسان ہے، یعنی غلطی کی گنجائش ہی گنجائش۔ گلا غلط کاٹو یا کندھا، گھیرا چھوٹا بڑا، لمبائی کم زیادہ۔ جو بھی کرو گے، گاہک سے ڈانٹ ہی سنو گے نا۔ مالی نقصان ہوا نا، کپڑا سلوانے والی تو زندہ سلامت۔
میاں، چاقو ہاتھ میں لے کر انسانی جسم کی بال برابر پرت سے پرت علیحدہ کرنا پڑے تو پوچھوں؟
مزید پڑھیے: پانی سے گھرے ٹیلوں پر بیٹھی حاملہ عورتیں!
تارڑ صاحب سے دائی کا لقب تو عطا ہوا ہی تھا اب ایک اور صاحبِ علم نے ٹیکنیشن کا اعزاز تھما دیا ہے۔ مانا بھئی مانا کہ گائنی سرجری تکنیکی کھیل ہے لیکن جنت مکانی پروفیسر عطا اللہ خان کہا کرتے تھے کہ سیزیرین کرنا کونسا مشکل کام ہے، یہ تو بندر بھی سیکھ جائے گا لیکن سیزیرین کب کرنا ہے، کب نہیں اور سیزیرین کے بیچ ہوئی پیچیدگی کو کیسے سنبھالنا ہے، یہ ہر کوئی نہیں سیکھ سکتا۔
فون زور زور سے بج رہا تھا۔
...OT calling
انہیں کیا ہوا بھئی؟ میٹنگ چل رہی تھی۔ لیکن آپریشن تھیٹر کی کال تو سننی ہی ہے۔
ہیلو، فون ایٹنڈ کیا۔
.U r needed in OT. Come fast
ایسے موقعوں پر اسپتال کے کوریڈور میں دوڑنے کا منظر دیکھنے والوں کو خوب دلچسپ لگتا ہوگا۔ اچھی خاصی مہذب صورت عورت بھاگی جا رہی ہو، ہٹو بچو، کہتے ہوئے۔
او ٹی پہنچ کر کپڑے تبدیل کیے اور اس کمرے کی طرف دوڑے جہاں مریضہ میز پر تھی اور ڈاکٹرز ہمارے انتظار میں۔
کیا ہوا؟
’اس مریضہ کا پانچواں سیزیرین ہے‘، ہمیں بتایا گیا۔
کھولا تو ہر عضو آپس میں جڑا ہوا تھا۔ پیٹ کی دیوار کاٹ کر کھول تو لی لیکن بہت مشکل ہوئی۔ پیٹ کے اندر پہنچے تو انتڑیاں بچے دانی کے اوپر بیٹھی سستا رہی تھیں۔ ان کو ہم نے نہیں چھیڑا، لیکن پچھلے آپریشنز والی جگہ سے بچے دانی بہت کمزور اور کاغذ کی طرح پتلی ہے۔ کھولنے سے پہلے ہی بچے کے بال نظر آرہے تھے۔
مثانہ بہت اوپر تک آچکا تھا اور بُری طرح چپکا ہوا بھی۔ تھوڑا سا ہٹا کر بچہ تو نکال لیا لیکن اب شک ہے کہ مثانہ زخمی نہ ہوگیا ہو۔ بچے دانی سینے کی بھی کوئی جگہ نظر نہیں آرہی۔ ایک آدھ ٹانکہ بھرا تھا لیکن وہ جگہ ہی ادھڑ گئی۔
مزید پڑھیے: پھٹی ہوئی آنول، اندھیرا اور راز!
چلو دیکھتے ہیں۔
سسٹر پیشاب کی نالی میں نیلی دوائی ڈال کر مثانہ بھر دیں۔
جولی جولی، تیرے لیے چڑھ جاؤں سولی۔
کیرالائٹ نرس جولی مسکراتی ہے۔ سمجھتی ہے کہ مشکل وقت میں بولی وڈ کے سب گیت یاد آجاتے ہیں ہمیں۔
مثانہ نیلی دوائی سے ایسے پھولا جیسے پیشاب سے بھرتا ہو۔ کہیں کوئی سوراخ نہیں تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ مثانہ اور بچے دانی ایک ہوئے تھے۔
جولی جولی، وہ پتلی والی قینچی دینا باریک منہ اور تیز دھار والی۔ ہائے عورت بھی تیز دھار ہوتی تو مزا تھا۔ لو آپریشن ٹیبل پر بھی فیمن ازم کا رولا۔
مثانے کو ایک طرف کھینچا، قینچی کی پھرتیلی چال، بال سے باریک قدم اور تلوار سے گہرا وار۔ سانس روکتے سانس کھینچتے کٹائی ہوتی چلی گئی۔ مثانہ سلامت، بچے دانی کا نچلا حصہ جیسے ساون کی مسلسل بارش میں بھیگ بھیگ کر خستہ حال کپڑا، جہاں سے چھوؤ، تار تار۔
جولی جولی، پتلی سوئی والا دھاگہ تو دے دو۔
ایسے موقعوں پر بچے دانی سینے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اوپر والا حصہ نارمل موٹائی اور نیچے والا سمجھو ہے ہی نہیں۔ دونوں کو کیسے جوڑیں؟ خیر روٹین سے ہٹ کر سینا شروع کیا اور جونیئرز کو بھی دکھا دیا کہ دیکھو مشکل وقت ہو تو ایسے کام ہوتا ہے۔ یہاں پر سوئی، وہاں پر گانٹھ۔ ایسے کھینچو دھاگہ جیسے بچے کو سہلانا ہو، باندھو ایسے کہ نہ کچھ پھٹے، نہ تار تار ہو۔ خستہ حالی کا بھرم رکھنا سیکھو۔
مزید پڑھیے: دُفعی، دُفعی، دُفعی!
ان اعضا کو کاٹنے اور سینے میں کوئی کسر رہ جائے تو سوراخ بن جاتا ہے کبھی صرف مثانے میں اور کبھی مثانے اور رحم کے بیچ۔ نتیجتاً پیشاب مثانے میں ٹھہرتا نہیں۔ مثانے سے رحم میں، پھر رحم اور ویجائنا سے ہوتے ہوئے جسم سے رستا ہوا پیشاب، بغیر کسی کنٹرول کے۔ سوراخ بننے کہ اس عمل کو فسٹولا کہتے ہیں اور زچگی کی پیچیدگیوں میں سے ایک جو عورت کو جیتے جی اچھوت بنا کر جہنم میں دھکیل دیتا ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں کی عورت بُری طرح فسٹولا کی پیچیدگی کا شکار ہے۔ زچگی کا طویل دورانیہ ایک اہم وجہ ہے۔
بچے دانی سل چکی۔ مثانہ اپنی جگہ پر جا چکا۔ مریض ٹھیک، چلو جی میٹنگ میں واپس۔
لو بھئی جولی جولی، تیرے لیے چڑھ جاؤں سولی۔ ہم چلے اس جہان سے، دل اُٹھ گیا یہاں سے۔
جولی کے چہرے پر آئی مسکراہٹ ماسک کے پیچھے سے نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اسے اس مہم کا ایک کردار ہونے میں فخر ہے جس میں ایک عورت کی زندگی پیچیدگیوں کا شکار ہونے سے بچ گئی۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔