پاکستان

شہباز گِل کی ضمانت منسوخی کیلئے وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ سے رجوع

شہباز گل کی ضمانت کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہیں ہے، ضمانت منسوخ کی جائے، درخواست میں مؤقف
|

وفاقی حکومت نے رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شہباز گل کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے شہباز گل کی ضمانت منسوخی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ : اسلام آباد ہائیکورٹ کا شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ہائی کورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، لہٰذا شہباز گل کی ضمانت منسوخ کی جائے۔

خیال رہے کہ 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کی ضمانت 5 لاکھ روپے کی مچلکوں کے عوض منظور کرلی تھی۔

شہباز گِل کے خلاف مقدمہ

شہباز گِل کو 9 اگست کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے (بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا، دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز توسیع کی استدعا مسترد

16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے اسی دن سننے کا حکم دیا تھا۔

17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا، 22 اگست کو ان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا، 2 روز بعد 24 اگست کی سماعت میں مزید 7 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی اسلام آباد پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل نے درخواست ضمانت دائر کردی

بعد ازاں 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے 6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ شہباز گل کا بیان لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ تھا، سیاسی جماعت کے ترجمان اور ماہر تعلیم ہونے کے دعویدار سے لاپرواہ بیان کی امید نہیں تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا گیا کہ افواج پاکستان کی جانب سے مقدمے میں کوئی شکایت نہیں کی گئی، افواج پاکستان کا نظم و ضبط اتنا کمزور نہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کے لاپرواہ بیان سے متاثر ہوجائے، پولیس کوئی شواہد نہیں دے سکی کہ شہباز گل نے بیان سے پہلے یا بعد میں کسی افسر یا سپاہی سے رابطہ کیا۔

اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عالیہ نے کہا تھا کہ شہباز گل سے تفتیش مکمل ہوچکی، مزید جیل میں نہیں رکھا جاسکتا، شہباز گل کو مزید جیل میں رکھنا بےسود ہوگا بلکہ ٹرائل سے پہلے سزا دینا ہوگا۔

شہباز گل کا متنازع بیان

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست، مداخلت نہیں کر سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر مریم نواز کو پاسپورٹ واپس دے دیا گیا

لاہور کے کھانوں نے تھوڑا مایوس کیا، کراچی کے کھانے شاندار تھے، معین علی

کویت: انتخابات کے بعد حکومت کا استعفیٰ منظور