گلشن معمار میں داعش-خراسان کے دہشت گرد مارے گئے، محکمہ انسداد دہشت گردی
سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی کے مضافات میں ایک روز قبل کی گئی کارروائی میں کالعدم داعش خراسان گروپ سے منسلک دو دہشت گرد مارے گئے، جو 12 ربیع الاول کے جلوس پر خودکش حملے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔
سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آصف اعجاز شیخ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان سی ٹی ڈی نے سندھ کی سی ٹی ڈی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو معلومات فراہم کی تھیں کہ داعش خراسان کے دو انتہائی مطلوب دہشت گرد پشین سے تعلق رکھنے والے سید ایمل خان عرف حمزہ اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عرف میم کراچی کے علاقے گلش معمار کے ملا عیسیٰ گوٹھ میں موجود ہیں
مزید پڑھیے: کراچی میں محکمہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی، مقابلے میں دو دہشت گرد ہلاک
ان کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے۔
آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ خفیہ اطلاع پر ایکشن لیا گیا، جس کے لیے انچارج سی ٹی ڈی راجا عمر خطاب کی سربراہی میں خفیہ ایجنسی اور سی ٹی ڈی کی ایک مشترکہ ٹیم بنائی گئی تھی۔
دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ٹیم نے علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کے گھر میں داخل ہونے کا انتظام کرلیا تھا اسی دوران دہشت گردوں نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں سی ٹی ڈی عہدیدار ارشد خان زخمی ہوئے لیکن پولیس کے دیگر اہلکاروں نے کارروائی جاری رکھی اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
آصف اعجاز شیخ کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک انتہاپسند اور سی ٹی ڈی کے دوسرے عہدیدار عامر رفیق زخمی ہوگئے، اسی طرح چھت کے راستے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے دوسرے انتہاپسند کا پیچھا کرتے ہوئے سی ٹی ڈی ایک اور اہلکار عرفان محبوب بھی زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ چھت پر پوزیشن لے کر بیٹھی پولیس پارٹی نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد انتہاپسند کو ہلاک کردیا۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی ٹیم نے دہشت گردوں کی رہائش گاہ کے اندر گرینیڈ پھینکا اور آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے جبکہ زخمی انتہاپسند نے بھی پولیس پارٹی پر ہینڈ گرینیڈ پھینکا اور فائرنگ جاری رکھی، اس دوران گولی لگنے سے سی ٹی ڈی کے چوتھے افسر مولا بخش بھی زخمی ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتہاپسند بظاہر فائرنگ کے تبادلے کے دوران مارے گئے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، دہشت گردی کا بڑا منصوبہ ناکام
انہوں نے کہا کہ بم ڈسپول اسکواڈ کو طلب کیا گیا اور جائے وقوع کی تلاشی کے دوران وہاں سے ایک خود کش جیکٹ، دو ہینڈ گرینیڈز، دو نائن ایم ایم پستول، 80 گولیاں، ڈیٹونیٹرز، بال بیرنگز، دھماکا خیز ڈیوائس اور ایک ہدف کی فہرست برآمد کرلی گئی۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ بلوچستان سی ٹی ڈی نے مارے گئے انتہاپسندوں کی شناخت کی، جو ابتدائی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک تھے لیکن بعد میں داعش خراسان میں شمولیت کی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں دہشت گرد بلوچستان میں 2017 میں ڈی آئی پولیس حمید شکیل پر خود کش حملے میں ملوث تھے، گزشتہ برس کوئٹہ کے سرینا ہوٹل کی پارکنگ ایریا میں ایک اور خود کش حملے میں بھی ملوث تھے، اس کے علاوہ سیکیورٹی عہدیداروں کے خلاف دہشت گردی کے کئی حملوں میں ملوث رہے۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ 'یہ بلوچستان سے چند ماہ قبل فرار ہوگئے تھے اور کراچی میں چھپے ہوئے تھے' اور تین روز قبل گلشن معمار منتقل ہوگئے تھے۔
آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ 'بارودی مواد اور ان کے ٹھکانے سے برآمد دیگر اشیا کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 12 ربیع الاول کے جلوس پر خود کش حملہ اور اہم مذہبی اور سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے'۔
انہوں نے بتایا کہ کارروائی تین گھنٹوں تک جاری رہی، جس کی براہ راست نگرانی سندھ اور بلوچستان سی ٹی ڈی اور وفاقی تحقیقاتی ادرے کے سینئر افسران کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سی ٹی ڈی کراچی نے یہ بروقت کارروائی خفیہ اطلاع کے ذریعے کامیابی سے کی اور کراچی ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے بڑے واقعے سے بچ گیا'۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: سی ٹی ڈی نے تحریک طالبان پاکستان کے 'انتہائی مطلوب دہشت گرد' کو گرفتار کر لیا
ادھر انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سندھ غلام نبی میمن نے کارروائی کرنے والی ٹیم کے ارکان کے لیے نقد انعام اور تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا اور سی ٹی ڈی کے زخمی اہلکاروں کی عیادت کے لیے آغاخان یونیورسٹی ہسپتال کا دورہ بھی کیا۔
پاکستان میں داعش کا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں
سی ٹی ڈی کے عہدیدار راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ محکمے کے پاس مارے گئے دہشت گردوں کے ساتھیوں کے بارے میں اطلاعات ہیں لیکن وہ کراچی میں موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش افغانستان سے بلوچستان میں داخل ہوتی ہے لیکن کالعدم تنطیم کا کوئی نیٹ ورک یا تنظیمی ڈھانچہ پاکستان میں نہیں ہے۔
سی ٹی ڈی عہدیدار نے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ ماضی قریب میں وزیرستان میں کارروائیاں شروع ہونے کے بعد انتہاپسند تنظیم کے ٹھکانے 'ختم' کردیے گئے ہیں۔