'ٹرانس جینڈر ایکٹ پر اعتراض کرنے والے خود اس قانون کو پڑھیں'
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں نے 'ٹرانس جینڈر ایکٹ' کے خلاف پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن قرار دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور پریس کلب میں دیگر کمیونٹی اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکنان نے خواجہ سرا کمیونٹی کے خلاف اس نفرت انگیز مہم کی مذمت بھی کی ہے جو ان کے بقول ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے مذہبی برادری سمیت دیگر افراد پر بھی زور دیا کہ وہ بہتر انداز میں اس قانون کو سمجھنے کے لیے اسے خود پڑھیں۔
رکن خواجہ سرا کمیونٹی اور یونیورسٹی لیکچرار جنت علی نے کہا کہ اب انتخابات نزدیک ہیں اس لیے مذہبی جماعتیں خود کو زیادہ مسلمان ثابت کرنے کے لیے ایک مظلوم طبقے کو استعمال کر رہی ہیں، ان کی اس مہم نے ہماری زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا، وفاقی وزیرقانون
شناختی کارڈ حاصل کرنے والے ٹرانسپرسن کی جنس کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کرنے کی تجاویز کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ یہ دستاویزات حاصل کرنے کے دوران کتنے عام مرد و خواتین کو اپنی جنس ثابت کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اسلام تو حیا کا درس دیتا ہے پھر ہماری حیا پر سوال کیوں اٹھائے جارہے ہیں؟ ہم پہلے ہی بہت تکلیف سے گزر چکے ہیں، ہمارے مذہبی رہنما ہمیں اس حوالے سے مذاکرات کی دعوت دیتے تو فائدہ ہوتا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ قانون مرد و خواتین کے لیے اپنی جنس تبدیل کروانے کا مفت ذریعہ نہیں بلکہ خصوصاً ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ہے، ہم اس منفی پروپیگنڈے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں‘۔
خواجہ سرا کمیونٹی کی ایک اور کارکن لیلیٰ ناز نے کہا کہ اگر یہ قانون 75 سال بعد ہمارے لیے امید کی کرن بن رہا ہے تو آپ اسے ہم سے کیوں چھیننا چاہتے ہیں؟ ہم میں ایسا کیا ہے جو آپ کو برداشت نہیں؟ ہم پر حملہ اور ہمیں ہراساں کیوں کیا جارہا ہے؟ مذہبی طبقے کو چاہیے کہ وہ ہم سے بات کرے، ہم سے مشورہ کرے اور ہمیں سرعام ذلیل نہ کرے۔
مزید پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت
سینئر سماجی کارکن نیلی رانا نے کہا کہ حالیہ مہم خواجہ سرا کمیونٹی کو ایک صدی پیچھے لے گئی ہے جب انگریزوں نے ان کے خلاف سخت قوانین کا نفاذ کیا تھا۔
انہوں نے سوال کیا کہ جب مرد و خواتین کو میڈیکل ٹیسٹ کے عمل سے نہیں گزرنا پڑتا تو خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
سونیا ناز نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے جھوٹی خبروں کو اپ لوڈ نہ کریں یا ان پر یقین نہ کریں کیونکہ اس کے سبب ان کے خلاف حملے ہو رہے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایکس‘ شناختی کارڈ کا حامل کوئی بھی شخص آئین اور شریعت کے مطابق شادی نہیں کر سکتا، ہم پہلے ہی ایک پسماندہ اور کمزور طبقہ ہیں، ہمارے خلاف پہلے ہی بہت زیادہ تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات ہو رہے ہیں، جھوٹی خبریں ہماری زندگیوں کو مزید متاثر کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ آخر ہے کیا؟
انہوں نے کہا کہ 'ہم نہ صرف کالج/یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اسلامی تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں، اس لیے ہم جانتے ہیں کہ اسلام کس چیز کی اجازت دیتا ہے اور کس کی نہیں، ہم صرف عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں‘۔
چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی نے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے خواجہ سرا کمیونٹی کی حمایت کی۔
انہوں نے توجہ دلائی کہ کس طرح خواجہ سرا طبقے سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے، ان کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جارہا اور آئین کے تحت حاصل ہر بنیادی حق سے انہیں محروم رکھا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2012 میں وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ خواجہ سرا کمیونٹی کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے جو کہ ہر شہری کا حق ہے، اس کے نفاذ سے قبل اس قانون کی ہر شق کا مطالعہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ہمیں سمجھنا ہوگا ’ٹرانس جینڈر‘ خواجہ سرا نہیں ہوتے، ماریہ بی
ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا کمیونٹی خود کو معاشی اور سماجی طور پر مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اپنے اردگرد موجود دقیانوسی تصورات کو توڑنا چاہتی ہے۔
حنا جیلانی نے کہا کہ 'اس قانون پر اعتراضات کی کوئی منطق نہیں ہے، عدالت کو صرف قانونی ماہرین اور مذہبی اسکالرز کی رائے سننے کے بجائے اس قانون کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے'۔