پاکستان

توہینِ عدالت کیس: 'شاید ریڈ لائن کراس کردی، معافی مانگنے کو تیار ہوں'

مستقبل میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو کسی بھی عدالت بالخصوص ماتحت عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچائے، عمران خان کا بیانِ حلفی
|

ڈسٹرکٹ ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیانِ حلفی جمع کرادیا۔

واضح رہے کہ 20 اگست کو ایک ریلی کے دوران خاتون جج کو دھمکی دینے پر گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔

22 ستمبر کی سماعت میں عمران خان نے جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: عمران خان معذرت کرنے کیلئے خاتون جج زیبا چوہدری کی عدالت پہنچ گئے

جس پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ عمران خان معافی سے متعلق ایک ہفتے کے اندر بیان حلفی جمع کرا دیں، خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔

ساتھ ہی عدالت نے ان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی بھی مؤخر کردی تھی۔

ایک روز قبل عمران خان اپنے بیان پر معافی مانگنے کے لیے خاتون ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کی عدالت بھی پہنچے تھے تاہم ان کی جج سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں عدالت سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان خاتون جج سے معافی مانگنے کو تیار، فرد جرم کی کارروائی مؤخر

البتہ ان کا کہنا تھا کہ میں بطور چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ 26 سال سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے احترام اور آزادی کے جدوجہد کررہا ہوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے برعکس میں نے ہمیشہ ہر عوامی اجتماع میں قانون کی حکمرانی کی بات کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی۔

انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جزز کو دھمکی دینا نہیں تھا نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا کےکوئی ارادہ تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جج کے سامنے یہ وضاحت کرنے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے اور نہ میری پارٹی نے معزز جج کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست کی اور اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر میں نے لائن کراس کردی تھی تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: معافی نہ مانگنے سے مانگنے تک کا سفر: عدالت میں کیا کچھ ہوتا رہا

بیان حلفی میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میں عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو کسی بھی عدالت بالخصوص ماتحت عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچائے۔

انہوں نے کہا کہ میں مستقبل میں ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہوں جو عدالت اس بات کے اطمینان کے لیے ضروری اور مناسب سمجھے کہ میرا ارادہ عدالتی کارروائی یا عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کا نہیں تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے یقین دلایا کہ 22 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں جو کچھ عدالت کے سامنے کہا اس پر عمل کروں گا۔

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔

وہاڑی میں جعلی پولیس مقابلہ، ڈی ایس پی معطل، ڈی پی او عہدے سے برطرف

پاکستان تحریک انصاف کی استعفوں سے متعلق آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

کام کی جگہ پر ہراسانی: ڈی جی پیمرا ملازمت سے برطرف، 25 لاکھ روپے جرمانہ عائد