انگلینڈ کا دورہ پاکستان اور قصہ این بوتھم اور ان کی ساس کا
عام زندگی میں تو ہم سب ہی ساس اور بہو کے رشتے میں روایتی کشمکش اور نوک جھوک سے واقف ہوتے ہیں، اسی طرح ساس اور داماد کا رشتہ بھی سب ہی کو پیارا ہوتا ہے لیکن کرکٹ کے کھیل کے حوالے سے ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جسے بیان کیے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں مدِمقابل ہوں۔
تنازعات، اختلافات، سازشیں، اسپاٹ فکسنگ، میچ فکسنگ، بال ٹیمپرنگ اور امپائروں سے لڑائی جھگڑے جیسے غیر متوقع واقعات ان دونوں ٹیموں کے میچوں میں دیکھنے کو ملے ہیں۔ کچھ ایسا ہی واقعہ 1984ء میں بھی ہوا جب باب ویلیس کی سربراہی میں انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انگلینڈ کے آل راؤنڈر این بوتھم جو اب سر این بوتھم ہیں ان سے یہ واقعہ منسوب ہے۔
انگلینڈ کے دورے پر کراچی ٹیسٹ سے پہلے مجھے پاکستان کے ایک فاسٹ باؤلر نے طارق روڈ پر اپنے ایک دوست کے گھر کھانے کے لیے مدعو کیا تو میں دعوت قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ چلا گیا۔ کھانے کے بعد جب میزبان کے گھر سے روانہ ہونے لگے تو میزبان نے ہمارے فاسٹ باؤلر کو ایک پیکٹ یہ کہتے ہوئے دیا کہ یہ آپ کی فرمائش پر منگوا کر دے رہا ہوں۔
گاڑی میں روانگی سے قبل باؤلر موصوف نے میرے پوچھے بغیر خود ہی یہ بتایا کہ اس تھیلے میں چرس ہے جس کی فرمائش انگلینڈ کے کھلاڑی این بوتھم اور ایلن لیمب نے کی ہے اور اسے میں کل ان کے حوالے کروں گا۔
میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اکثر کھلاڑی جس میں پاکستانی کھلاڑی بھی شامل تھے وہ اس قسم کی فضولیات کا حصہ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ این بوتھم کو منشیات کے استعمال پر نہ صرف انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ بلکہ عدالت نے بھی سزائیں سنائی ہوئی تھیں۔
بہرحال این بوتھم کراچی میں ٹیسٹ کھیلنے کے بعد اور انگلینڈ کے ٹیسٹ ہار جانے کے بعد اپنا دورہ پورا نہ کرسکے۔ وہ زخمی ہونے کی وجہ سے انگلینڈ چلے گئے اور اسپتال کے بستر سے یہ بیان داغ دیا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کا یکطرفہ ٹکٹ لے کر آپ اپنی ساس کو بھیج دیں تاکہ وہ واپس نہ آسکیں۔ دراصل وہ اپنی ساس کا نام لے کر اپنے غصے کا اظہار کررہے تھے کہ پاکستان ایک بیکار سا ملک ہے جہاں اپنی ساس کو بھیج کر ان سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس بیان پر پاکستانیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ یہاں تک کہ لاہور میں ٹیم ہوٹل کے ملازمین نے کھلاڑیوں کے بستر بنانے سے انکار کردیا اور ویٹروں نے انہیں کھانا پیش کرنے سے انکار کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
نتیجے کے طور پر این بوتھم کو پاکستان سے معافی مانگنی پڑی اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ نے ان پر ایک ہزار پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کردیا۔ این بوتھم 1984ء کے اس واقعے کے بعد 1987ء کی سیریز میں پاکستان نہیں آئے۔ اس سیریز میں انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستان کے امپائر شکور رانا کے جھگڑے نے فیصل آباد ٹیسٹ کو ایک بین الاقوامی اسکینڈل بنا دیا۔ اس کی کہانی پھر کبھی صحیح۔
تاہم بوتھم نے 1984ء کے اس دورے کے بعد سال 2000ء میں انگلینڈ کے دورہ پاکستان کے موقع پر اسکائے نیوز کے کمنٹیٹر کی حیثیت سے 16 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا۔
اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگلینڈ کے اخبار ڈیلی مرر جس کی ایک دن کی سرکولیشن تقریباً 30 لاکھ ہے اس نے این بوتھم کی ساس اور سسر کو پاکستان جانے کی دعوت دی۔ انہیں فرسٹ کلاس کا دو طرفہ ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹل میں رہائش اور اس کے علاوہ میری اطلاعات کے مطابق ساس اور سسر دونوں کو 50، 50 ہزار پاؤنڈ بھی دیے گئے۔ آخر ایسی آفر کو کون ٹھکراتا ہے۔ لہٰذا این بوتھم کی ساس جین والر اور سسر جیری والر پاکستان کے دورے پر آئے۔
یارکشائر کے ایک گاؤں تھورن سے تعلق رکھنے والی سیدھی سادھی اسکول ٹیچر جین اور ان کے شوہر جیری جو موسیقی کے آلات بنانے والی ایک دکان پر کام کرتے تھے، وہ پاکستان آگئے۔
اس وقت این بوتھم بھی پاکستان میں موجود تھے اور ڈیلی مرر کے صحافی، فوٹو گرافر اور ان کا ایک پورا عملہ این بوتھم کی ساس اور سسر کو لاہور کی سیر کرواتے رہے اور وہ اپنے اخبار میں کہانیاں اور فوٹو شائع کرکے اپنی سرکولیشن کو مزید چار چاند لگاتے رہے۔ دوسری طرف این بوتھم جنہوں نے پاکستان کو بُرا بھلا کہا تھا وہ شرمندہ ہوتے رہے جبکہ کرکٹ شائقین این بوتھم کے ساس، سسر کے دورہ پاکستان کی کہانیاں پڑھ کر محظوظ ہوتے رہے۔
این بوتھم نے پاکستان سے متعلق جو بیان دیا تھا اس پر انہوں نے پاکستانیوں سے معافی کی خواہش بھی ظاہر کی اور بوتھم کی خاطر مدارات 16 سال بعد پاکستان میں اسی انہماک سے ہوئی جس طرح ان کی ساس اور سسر کی ہوئی۔
لاہور کے نواحی اور تاریخی علاقوں کی سیر کرتے ہوئے جین اور جیری کی خاطر مدارات سڑکوں پر چلتے لوگوں نے بھی اپنے روایتی انداز میں کی اور ساس اور سسر نے تو اس مہمان نوازی اور گرم جوشی کو خوب سراہا۔
انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کو سراہتے اور اپنے داماد کے بیان کو منفی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرے داماد نے پاکستان کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ غلط تھے۔ پاکستان تو ایک بہت ہی خوبصورت ملک ہے اور یہاں کے لوگ بہت زیادہ محبت کرنے والے اور مہمان نواز ہیں۔
جین والر نے کہا تھا کہ ’میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پاکستان کے لوگ اتنے کھلے دل کے ہیں۔ ان کی غربت ایک طرف لیکن پاکستانیوں کے دل محبت سے سرشار ہیں۔ مہمان نوازی میں دنیا کا کوئی بھی ملک ان کا ثانی نہیں، ہم تو بار بار پاکستان آنا چاہیں گے‘۔
اس عرصے میں ڈیلی مرر کی سرکولیشن 30 لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی اور این بوتھم کی ساس نے اپنے داماد کے ہتک آمیز تبصرے کی مذمت کی۔
تو یہ تھا پاکستان اور انگلینڈ کے کرکٹ مقابلوں کے دوران ایک ساس اور داماد کا معاملہ۔
قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ’فار مور دین اے گیم‘ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔