جبری مذہب تبدیلی کی روک تھام کیلئے مضبوط قوانین واحد حل قرار
اقلیتی برادری کی لڑکیوں کے تحفظ کے لیے منعقدہ قومی پالیسی مباحثے میں مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غیر مسلم لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی کے زیادہ تر کیسز رضامندی کی وجہ سے پیچیدہ ہوجاتے ہیں، تاہم اس مسئلے کا حل تاحال تلاش نہ کیا جانا ایک انتظامی ناکامی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس مباحثے کے لیے پینل کا اہتمام سینٹر فار لا اینڈ جسٹس (سی ایل جے) نے کیا تھا جس میں نشاندہی کی گئی کہ عدالتیں بھی اس مسئلے کی جڑ پر قابو پانے میں تاحال ناکام ہیں۔
مباحثے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ غیر مسلم پاکستانیوں کو درپیش مسائل کو مضبوط قانونی تحفظ کی مدد سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ غیر مسلم لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کے کیسز میں انسانی حقوق کی سب سے بنیادی خلاف ورزی کم عمری کی شادی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جبری مذہب تبدیلی کی وضاحت اسلامی نظریاتی کونسل کرے گا، پارلیمانی کمیٹی
مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مختلف عدالتوں نے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی پر مختلف فیصلے سنائے ہیں۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی پر وزیر اعظم کے خصوصی نمائندے علامہ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ بعض عناصر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ ایسے لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہزار کے قریب غیر مسلم لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جاچکا ہے، میں نے بارہا ان سے کہا ہے کہ ہمیں اس حوالے سے تفصیلات فراہم کریں تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں والدین کو 2 مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پہلا یہ کہ وہ اپنی بیٹی کو کھو دیتے ہیں اور دوسرا سنگین مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنی بیٹی سے ملنے نہیں دیا جاتا۔
مزید پڑھیں: پارلیمانی کمیٹی نے جبری مذہب تبدیلی سے متعلق بل مسترد کردیا
انہوں نے اس صورتحال کا ذاتی مفاد کے لیے استحصال کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں جانب کے لوگ اسے مذہبی مسئلہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ایک انتظامی ناکامی ہے، مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے فریقین کے درمیان مکالمے کی فضا ہموار کرنے کی ضرورت ہے‘۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف مہناز اکبر نے کم عمری کی شادیوں پر قابو پانے کے لیے مضبوط قانونی تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جبری شادیوں کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ غیر مسلم پاکستانیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، صرف مضبوط قوانین کی مدد سے ہی انہیں درپیش مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا کنوینر سینٹر فار لا اینڈ جسٹس میری گل نے کہا کہ ہندو اور عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والی متعدد لڑکیوں کو زبردستی شادی اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اقلیتی کمیشن نے جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرلیا
انہوں نے کہا کہ ’ملک میں 2 قانون ہیں، ملک کے دیگر حصوں میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 16 سال ہے جبکہ سندھ میں 18 سال ہے، ہم عدالتوں سے ان قوانین پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے کیسز میں لڑکیوں کی بڑی تعداد 13 سال سے کم عمر کی ہوتی ہے لیکن رجسٹرار، یونین کونسل، پولیس حتیٰ کہ عدالتیں بھی نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے دلہن کے عمر کے تعین کے لیے ثبوت نہیں مانگتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے کچھ کیسز میں عدالتوں نے یہ فیصلے بھی دیے ہیں کہ اگرچہ شادی غیر قانونی ہے لیکن اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔