’مہرانو‘: شکار گاہ سے پناہ گاہ تک کا سفر
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا سفر اختتام کی طرف ہے۔ ایک انسان کی عمر کتنی ہوسکتی ہے؟ 70 یا 80 برس؟ اس کے بعد اگر وہ 20 برس اور جی بھی گیا تو حیاتی اسے نہیں گزارے گی بلکہ حیات کو وہ گزار رہا ہوگا۔
اس وقت آنکھیں اپنی روشنی کھو چکی ہوں گی، ٹانگیں آپ کو کبھی اجازت نہیں دیں گی کہ آپ ان پر اپنا بوجھ ڈالیں۔ اعصابی نظام اتنا کمزور ہوچکا ہوگا کہ زیادہ کچھ کنٹرول کرنا آپ کے بس میں نہیں ہوگا، نوالہ منہ تک لانے کے لیے آپ کا ہاتھ ساتھ نہیں دے رہا ہوگا اگر آپ نے اسے مجبور کیا تو وہ اتنا لرزے گا کہ خوراک جب منہ تک پہنچے گی تو آپ بیزار ہوچکے ہوں گے۔ رات کی گہری نیند اور اس کی لذت آپ کے لیے ایک خواب بن جائے گی۔ زندگی کی رفتار اتنی سُست ہوجائے گی کہ آپ تصور تک نہیں کرسکتے۔ جسم کی ساری خوبصورتیاں اور نزاکتیں وقت آپ سے بالکل اس رفتار سے چھین لے گا جس رفتار سے اس نے دی تھیں۔
یہ یقیناً ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی سے متعلق اس طرح سوچنے کا یہ ایک مایوسی سے بھرا اور تاریک پہلو ہے۔ اگر ہم سب یہ سوچنے بیٹھ جائیں تو ہم آج ہی مرجائیں گے۔ مگر موت کے ڈر سے حیات کی خوبصورتی اتنی زیادہ اور بڑی ہے کہ اس کے وجود سے پھول کی طرح اگ پڑتی ہے۔ جب یہ اُگ پڑتی ہے تو جینے کے لیے اس کا یہ سارا جہان ہے۔ موت تو پلوں کا کھیل ہے مگر حیات کے نخلستان اتنے ٹھنڈے، سرسبز اور شیریں ہیں کہ موت وہاں سے ہیچ نظر آتی ہے۔
میں آج آپ کو اپنے ساتھ وہاں لے کر جارہا ہوں جہاں کسی زمانے میں زندگی موت کے ڈر اور خوف سے چھپتی پھرتی تھی مگر پھر وقت بدلا، زمانے بدلے، صبح اور شامیں بدلیں اور حیات جیت گئی، ڈر اور خوف وہاں سے بھاگ نکلا کہ حیات کے قافلے زندگی اور خوبصورتی کی راہوں کے مسافر ہوتے ہیں۔
یہ 1857ء کے دسمبر کی شدید سرد رات ہے اور ایڈورڈ آرچر لینگلے جو میر علی مراد خان تالپور کے ساتھ اٹلی سے خیرپور میرس آیا ہوا ہے اور یہاں 2 برس تک رہے گا۔ وہ آج جلدی سوگیا تھا کہ کل اسے میر صاحب کے ساتھ شکار پر جانا تھا۔
وہ لکھتا ہے کہ ’رات کے اختتام کا مجھے جس آواز سے پتا چلا وہ اذان کی تھی اور ساتھ میں ایک فقیر کی بھی صدا گونجی جو میر صاحب کے ٹینٹ کے باہر اس نے لگائی تھی۔ میں جلدی اٹھا اور کپڑے تبدیل کرلیے۔ اتنے میں ہمارا ملازم فیض محمد نیند سے جاگا جس نے تازہ دودھ جو اس نے ابھی ابھی جانوروں سے دوہا تھا اور بسکٹ دے کر میر کے ٹینٹ کی طرف چلا گیا۔ میر کے ٹینٹ کے نزدیک ایک موسیقار نے روز کی طرح موسیقی بجانا شروع کی۔ یہ جیسے صبح ہونے کی نوید تھی۔ میر صاحب جب تیار ہوکر اپنے ٹینٹ سے باہر آئے تو شکار کے لیے بالکل تیار تھے۔ اسی طرح 100 جوشیلے گھڑ سواروں کے ساتھ ہم شکار کے لیے نکل پڑے۔ تیتروں کے شکار کے لیے باز تھے۔ البتہ سوروں اور خرگوشوں کے شکار کے لیے بڑے طاقتور افغانی کتے موجود تھے۔
’ہم جب جنگل کی ابتدا میں پہنچے اور سوروں کے شکار کی شروعات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ ایک تجربوں کی بنیاد پر بنی تکنیک کے ساتھ شکار کیا جا رہا تھا کہ کس طرح جانوروں کو ڈھول کی آوازوں اور شور سے جنگل کے ایک طرف دھکیلنا ہے، جہاں شکاری ان جانوروں کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ لوگوں، ڈھولوں اور بندوق کے فائروں کا بے تحاشا شور تھا۔ اس شکار میں پھاڑے (Indian Hog dear)، 12 کے قریب جنگلی سوروں (Wild bore) اور کئی تیتروں (Gray/Black Partridge) کے شکار کیے گئے اور اسی طرح صبح کا شکار ختم ہوا۔ ہم جنگل سے چار کوس دُور لگائے گئے کیمپ میں 11 بجے تک پہنچے وہ بھی میر صاحب کے اس وعدے کے ساتھ کہ شام کو پھر شکار پر چلیں گے۔‘
میں نے صوبھودیرو کے میر الطاف حسین تالپور سے پوچھا کہ میر مراد علی تالپور کے جس شکار کا ذکر لینگلے نے اپنی کتاب میں کیا ہے وہ جگہ کونسی ہوسکتی ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ شکار، میروں کی قدیم شکار گاہ مہرانو میں کیا گیا ہوگا۔ جس کو میر صاحب کے والد اور شمال سندھ کے حاکم میر سہراب خان تالپور نے 1790ء میں شکار گاہ کے لیے چھوڑا تھا۔ چونکہ ان دنوں میر صاحب کوٹ ڈیجی میں رہتے تھے اور شکار کے بڑے شوقین تھے تو یہ شکار گاہ کوٹ ڈیجی سے 4، 5 کلومیٹر جنوب مشرق میں ابھی تک موجود ہے۔‘
ہم جب کوٹ ڈیجی قلعے کو دیکھ کر فارغ ہوئے تو دوپہر ہوچکی تھی۔ ہم نے چائے پی اور میر سہراب اور میر علی مراد کے خاندان سے وابستہ نوجوان میر محسن کے ساتھ اس قدیم شکار گاہ کو دیکھنے کے لیے چل پڑے جس کا ذکر آپ ابھی پڑھ چکے ہیں۔ ساتھ میں تالپور خاندان کے میر الطاف تالپور اور کوٹ ڈیجی کے قریب رہنے والے جمال خان کلادی بھی تھے۔ آپ جیسے کوٹ ڈیجی کا قلعہ اور چھوٹی سی بستی کو الوداع کہہ کر جنوب کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو جب آپ کی نظر گندم کے کھیتوں اور درختوں پر پڑتی ہے تو آپ کو زمین کی زرخیزی کا علم ہوجاتا ہے کہ یہ علاقے دریائے سندھ کی قدیم گزرگاہیں رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا زرخیز ہونا قدرتی بات ہے۔
یہ کوٹ ڈیجی اور مہرانو ریگستان کے مغربی کنارے پر ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ خیرپور ریگستان کے آنگن میں بسی ہوئی بستی ہے۔ کیونکہ جہاں ریگستان شروع ہوتا ہے یا ختم ہوتا ہے اس کے بعد جو زمینی پٹی ہوتی ہے اس کو ’مہرانو‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں کی زمین بڑی زرخیز ہوتی ہے تو یہاں بھی زمین زرخیز تھی۔ گندم کے کھیتوں میں سنبل کے درخت تھے اور اتنے قدآوار اور ان کی شاخیں اتنی وسعت میں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کو دیکھتے ہی آپ کے اندر پیار اور احترام کی کیفیت تخلیق ہونے لگتی ہے۔ چونکہ ہم فروری کے آخر میں ان کو دیکھ رہے تھے تو سنبل پر سرخ پھول لگنا شروع ہوگئے تھے۔ اس لیے ہلکی سرخی تھی جو ان ٹہنیوں پر کسی دلہن کے ہاتھوں کی طرح نظر آتی۔
ہم ان کھیتوں کے بیچ میں بنے راستے سے ہوتے ہوئے مہرانو کے مرکزی دروازے پر پہنچے جس کو مٹی سے بنی مضبوط دیوار نے جکڑ رکھا تھا۔ وہاں ایک بورڈ نصب کیا گیا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ جب اس دروازے سے اندر داخل ہوں گے تو وہ جنگلی حیات کا محفوظ علاقہ ہے۔ جہاں آپ نہ تو زیادہ شور کرسکتے ہیں اور شکار کا تو خیر آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ جنگلی حیات کی پناہ گاہ ہے۔ میں آپ کو مختصراً اس ’شکار گاہ‘ کو ’پناہ گاہ‘ میں تبدیل ہونے کی کتھا بتاتا ہوں، جو مجھے میر محسن اور میر الطاف حسین نے بتائی تھی۔
مہرانو خیرپور سے 29 کلومیٹر اور کوٹ ڈیجی سے 4، 5 کلومیٹر کی دُوری پر ریگستان کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور 700 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ 1790ء میں شکار گاہ قائم کرنے کے بعد اس میں میر علی مراد اوّل نے بہت سارے شکار کیے اور یہ ایک زبردست شکار گاہ رہی۔ ایک شکار گاہ کے لیے جو کچھ چاہیے ہوتا ہے جیسے اچھا محل وقوع، ماحول، پانی کی فراوانی، آبادیوں سے دُور اور خاموشی تو وہ سب کچھ یہاں تھا۔ اس شکار گاہ میں کیے گئے شکاروں کی یادگار داستانیں ہیں جو آپ کو یہاں کے بڑی عمر کے لوگوں سے سننے کو مل جائیں گی خاص کر سوروں کے شکاروں کے متعلق۔
تحریروں میں لینگلے اس شکار گاہ کے سب سے بڑے شاہد ہیں جس کی کتاب یہاں کی شکار گاہوں سے بھری پڑی ہے۔ مگر پھر زمانے نے کروٹ لی اور میر علی مراد دوم نے 1968ء میں مہرانو میں شکار پر پابندی لگائی اور اس کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا اور ذاتی دلچسپی لے کر یہاں مقامی درختوں جیسے پھوگ (Calligonum polygonoides)، کرڑ (Capparis deciduas)، کنڈی (Prosopis cineraria)، بیری (Ziziphus nummularia)، پیلو(Salvadora persica)، برگد (Ficus benghalensis)، پیپل، کیکر، نیم، سرینھن (Albizia lebbeck) کے درخت لگوائے۔ 1972ء میں ایک آرڈیننس کے تحت سندھ کی جنگلی حیات کو قانونی تحفظ ملا اور اسی آرڈیننس کے تحت ’سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ‘ بنایا گیا جس میں سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور ماحولیات میں دلچسپی رکھنے والی شخصیات کو اس بورڈ میں شامل کیا جاتا تھا۔
ہِز ہائینس میر علی مراد تالپور 1986ء سے 1994ء تک اس بورڈ کے اعزازی چیئرمین رہے۔ اسی دوران ڈبلیو ڈبلیو ایف (ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ) کے تعاون سے نارا ریگستان اور کوٹ ڈیجی ٹکر کے علاقے کو بھی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا۔ اس کے سبب وہاں شکار کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔ 1994ء کے بعد سندھ حکومت نے سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کو ختم کرکے سندھ اسمبلی سے قانون سازی کرکے اس بورڈ کی جگہ ایک ادارہ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ قائم کیا جو اس پناہ گاہ کی نگرانی میں اس وقت متحرک ہے۔ یہ یقیناً ایک زبردست، مثبت اور شاندار تبدیلی تھی اور ہم اس پناہ گاہ میں جارہے تھے جہاں اب کسی پرندے اور کسی جانور کو یہ ڈر نہیں ہے کہ اچانک کہیں سے گولی آئے گی اور اس کی جان لے لے گی۔
آپ جیسے اس دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو راستے کے دونوں اطراف مختلف پیڑوں کی قطاریں نظر آتی ہیں جو ایک ترتیب سے لگائے گئے ہیں۔ ہماری گاڑی دھیرے دھیرے چلتی تھی بالکل ایسے جیسے شادی کے قافلے میں گاڑیاں چلتی ہیں۔ یہ سب اس لیے تھا کہ گاڑیوں کے شور کی وجہ سے یہاں کے منظرنامے میں کوئی افراتفری نہ پھیلے۔ ہمارے دونوں طرف منظر تیزی سے بدلتے جاتے، کہیں گھاس، کہیں تناور درخت، کہیں مرے ہوئے درختوں کی خشک ٹہنیاں، اگتے درخت، کہیں سرکنڈے اور کہیں جنگلی جھاڑیاں تھیں اور ان میں کئی پرندے اور جنگلی جانور تھے جو نظر تو نہیں آتے تھے مگر آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان جھاڑیوں کے پیچھے کچھ ننھی معصوم سی آنکھیں ہیں جو آپ کو گھورتی ہیں۔
پھر ہمیں کچھ سور نظر آئے جو درختوں کے نیچے خوراک تلاش کرتے تھے۔ ہماری گاڑی رکی تو کچھ دیر انہوں نے اپنی تھوتھنیاں اٹھاکر ہماری طرف دیکھا اور پھر اپنی خوراک کی تلاش میں لگ گئے۔ پھر کچھ فاصلے پھر 3، 4 سور کے بچے اپنی ماں کے ساتھ جنگل میں جاتے ہوئے ہمیں دیکھنے کے لیے رک گئے۔ کچھ پل گاڑی کو دیکھا اور اپنی راہ لی۔
یہاں پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں ہیں جن کا جال سارے جنگل میں آپ کو بچھا ہوا نظر آئے گا۔ جس طرح جسم کو شریانیں خون فراہم کرنے کا کام کرتی ہیں اس طرح جنگل کو حیات دینے کے لیے پانی کی نالیاں ہیں جس میں شیریں پانی بہتا ہے۔ مہرانو کو میرواہ کنال سے پانی ملتا ہے اس لیے پانی کی کمی ہمیں کہیں محسوس نہیں ہوئی۔ کچھ آگے جانے کے بعد ہم رک گئے، جیسے گاڑی کی ہلکی سی آواز بند ہوئی اور ہم گاڑی سے نیچے اترے تو خاموشی کے ساتھ درختوں، جھاڑیوں اور پانی کی ملی جلی خوشبو ہمارے نتھنوں میں گھس گئی۔ میں نے ایک لمبی سانس لی کہ اس خوشبو بھری آکسیجن کو اپنے پھیپھڑوں میں بھر سکوں۔
کچھ گہری سانسوں کے بعد منظرنامہ پہلے سے بھی زیادہ شاندار ہوگیا۔ کئی پرندوں کی ہلکی سی نزدیک اور دُور کے جنگل سے آتی ہوئی آوازیں، ہوا لگنے سے سرکنڈوں کی مخصوص سرسراہٹ، کھٹ بڑھئی کی درخت کے تنے پر چونچ مارنے کی مخصوص اور نپی تلی آواز اور تیزی سے آپ کے آگے سے گزر کر جنگل میں گم ہوتی ہوئی جل ککڑی اور بہت سارے ایسے مناظر جن تک ہماری سوچ کی اڑان کا پرندہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ بس آپ کے پاس دیکھنے اور گہرائی سے محسوس کرنے والی آنکھ ہو تو یہاں آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ فطرت نے اپنی خوبصورتیوں اور شیرینیوں کے بند خزانے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ فطرت ہر جگہ ایسی ہی مہربان ہوتی ہے، بس اگر انسان اپنی ہوس کو اپنے بس میں رکھنا سیکھ لے تو فطرت اپنی خوبصورتیاں نچھاور کرنے میں کبھی کنجوسی نہیں کرتی۔
جس طرح ہر وجود کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے بالکل ویسے ہی ہر درخت اور جھاڑی کی بھی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ جس طرح ہر انسان کی اپنی طبیعت ہوتی ہے بالکل ویسے ہی ہر درخت اور جھاڑی کا اپنا رنگ اور بناوٹ ہوتی ہے۔ جب کیکر پر جاڑوں میں تیز پیلے رنگ کے پھول لگے ہوں تو کبھی اس کے نیچے کھڑے ہوکر گہری سانس لیجیے گا۔ ان پیلے پھولوں اور کیکر کی ننھی پتیوں کی جو ملی جلی خوشبو آئے گی اس کو آپ کبھی بھلا نہیں سکیں گے۔ کبھی تپتے دنوں میں پیلو کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر اس کی مدھم اور ملائم سی خوشبو اپنے پھیپھڑوں میں منتقل کیجیے گا تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ خوشبو آپ کے خون میں بس جائے گی اور آپ اس سے کبھی جدا نہیں ہوپائیں گے۔ فطرت کی دین کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ بس وہ آپ سے محبت کی امید رکھتی ہے۔
میں نے میر صاحبان سے پوچھا کہ یہاں جنگلی حیات کی کتنی قسمیں ہیں جو اس فطری ماحول میں پنپ رہی ہیں تو جواب آیا کہ ’بہت ساری ہیں مگر ان کو ہم 2 حصوں میں بانٹتے ہیں۔ ایک وہ جو پورا برس یہاں رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو نقل مکانی کرکے ٹھنڈے علاقوں سے یہاں آتے ہیں اور سردیاں ختم ہونے کے بعد چلے جاتے ہیں۔ ان میں بطخوں کی کئی اقسام جیسے کہ نیرگ (Mallard)، ڈگوش (Northern pintail)، لنگھو (Northern shoveler)، بوئڑ (Gadwall)، رتونبو (Red-crested pochard)، کرڑو (Garganey) اور آڑی (Eurasian coot) خاص ہیں۔ جبکہ مقامی پرندوں میں خاص کر تیتر (کالا اور بھورا)، بٹیر، جل ککڑ، جل ککڑی، ہدہد، نیل کنٹھ، کُھٹ بڑھئی، کوئل، طوطے، ابابیل، لٹورا اور چیل کی کچھ اقسام، شکرا، اُلّو، عقاب، چھاپاکو (Nightjar)، ٹیٹیار (Red wattled) اہم ہیں جبکہ جانوروں میں سیار، لومڑ، جنگلی بلیاں، خرگوش، جنگلی سور، نیولا، خارپشت اور اود بلاؤ کے علاوہ بھی جنگلی جانور ہیں۔ ہرن (Indian Gazelle)، کالا ہرن (Black buck)، پھاڑو (Hog deer) اور چنکارہ ہرن بھی یہاں بہت بڑی تعداد میں ہیں، اور یہاں بہت سارے رینگنے والے (Insects and Reptiles) جاندار ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں ہیں‘۔
یہاں ناموں کی بہت مختصر تعداد ہے کیونکہ یہاں 4 ہزار سے زائد جانوروں کی نسلیں پنپتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے یہاں 3 کے قریب ملازم ہیں۔ یہاں مخصوص جانوروں کو خوراک بھی مہیا کی جاتی ہے جس پر ہر ماہ 5 لاکھ کا خرچہ آتا ہے جو میر علی مراد دوم کے بیٹے میر مہدی برداشت کرتے ہیں۔ جبکہ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ایک انسپیکٹر بھی یہاں مقرر ہے جو اس وائلڈ لائف سینکچری پر نظرداری کرتے ہیں اور ٹیکنیکل مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں۔
ہم آگے بڑھے تو ایک کھلے میدان میں پھاڑے اور ہرنوں کی نسلیں تھیں جو ہم سے نہیں ڈرتی تھیں۔ شام کی خوراک کے لیے ان کو گھاس دی گئی تھی۔ اس میدان میں درخت کچھ اسی طرح سے اگے ہوئے تھے جیسے بساط پر سارے مہرے رکھ دیے جائیں۔ سردی کی موسم کی وجہ سے کچھ درختوں کے پتے جھڑ گئے تھے، مگر پیلو کے پتے سارا سال دھیرے دھیرے سے جھڑتے اور نئے لگتے رہتے ہیں تو یہ مقامی درخت سارا سال ہرا ہی رہتا ہے۔ اگر آپ بھی ہرنوں کو اتنا نزدیک سے دیکھتے تو یقیناً آپ کو بھی اچھا ہی لگے گا۔
ہرنوں کے بعد ہمیں خاموش رہنے کے لیے اشارہ کیا گیا اور محسن رضا تالپور نے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ سرکنڈوں کے بیچ میں سے بنی پگڈنڈی تھی اور دھوپ وہاں کم پڑتی تھی۔ یہ پگڈنڈی اتنی طویل نہیں تھی مگر 10 منٹ تک ہم چلتے رہے اور خاموشی کی وجہ سے ماحول پر پُراسراریت کی ایک چادر سی تن گئی۔ اچانک ایک سیار سرکنڈوں سے نکلا، کچھ پل پگڈنڈی پر کھڑے ہوکر ہمیں دیکھا اور تیزی سے دوسری طرف جنگل میں گم ہوگیا۔
ہم جیسے جیسے چلتے جاتے سرکنڈے گھنے ہوتے جاتے اور پگڈنڈی سرکنڈوں کی سرنگ میں تبدیل ہوتی جاتی۔ پھر سرکنڈوں کے بیچ میں بیٹھنے کے لیے اینٹوں کی بیٹھک اور شمال کی طرف بھورے رنگ کا لگا ہوا کپڑا اور کپڑے میں سے دیکھنے کے لیے ایک فٹ سائز کے سوراخ۔ ساتھ میں یہ اشارے کہ خاموشی کو کسی کانچ کی طرح ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ میں نے دیکھا اور پہلی بار اتنا نزدیک سے دیکھا کہ سامنے گھنے سرکنڈوں اور دوسرے درختوں کے بیچ میں پانی کے تالاب تھے اور تالاب میں سیکڑوں بطخوں کی اقسام تھیں جو سائیبیریا سے انڈس فلائی زون کے راستے صدیوں سے ان گرم علاقوں میں آتی رہتی ہیں۔ مگر یہ معصوم پرندے ہماری جن بھی جھیلوں میں جاتے ہیں وہاں کارتوس میں بھرا سیسہ ان کے لیے موت کا پیغام لے آتا ہے اور بارود سے بچ گئے تو لکڑیوں پر ٹنگے جال میں پھنسنا ان کا جیسے مقدر ہے۔ پھر جب جاڑا ختم ہونے لگتا ہے تو ان میں سے جتنے بچارے بچ سکے وہ لوٹ جاتے ہیں۔
تاہم یہاں نہ کسی کارتوس اور نہ کسی جال کا خطرہ ہے۔ اس لیے وہ پانی میں تیرتے پھرتے ہیں۔ جب موڈ ہوتا ہے تو تالاب کے کنارے آکر دھوپ میں اپنے پر سکھاتے ہیں۔ میں شاید زندگی میں کبھی اتنی نزدیک سے ان پرندوں کو نہیں دیکھ سکوں گا۔ دو کیمروں کے شٹر کا ردھم شمال کی ہوا کی وجہ سے ان پرندوں تک نہیں پہنچ رہا تھا۔ مگر پھر اچانک پرندوں میں افراتفری پھیل گئی۔ سور اور اس کے بچے تالاب سے پانی پینے آئے تھے۔ ایک 2 منٹ کے بعد حالات پھر معمول پر آگئے۔
ہم ان خوبصورت اور قدرتی رنگوں میں نہائے ہوئے پرندوں کو دیکھ کر سرکنڈوں کی مہک میں رچی اس سرنگ سے باہر آئے۔ آپ کچھ گھنٹوں میں بہت کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ ہم اس عمارت کے پاس آئے جس کے اوپر جنگل کو دیکھنے کے لیے ٹاور بنایا گیا ہے۔ وہاں سے آپ اس پناہ گاہ کو دُور دُور تک دیکھ سکتے ہیں۔ درخت ہیں اور سرکنڈوں کے سفید دودھ جیسے سٹے ہیں جو وہاں پانی ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ فطرت کی زبان ہے جس کو آسمان پر اُڑنے والے پرندے اور نیچے اس جنگل میں رہنے والی جنگلی حیات ہی بہتر سمجھ سکتی ہے۔ جنگل ان سے باتیں کرتا ہے اور یہ اس جنگل کو اپنا گھر سمجھ کر اس کی زرخیزی میں جتے رہتے ہیں۔
فطرت کی خوبصورتی آپ سے اور کچھ نہیں مانگتی بس وہ فقط اتنا چاہتی ہے کہ آپ اس کو برباد نہ کریں۔ اپنی زبان کے کچھ دیر کے ذائقے کے لیے ان خوبصورت پرندوں کا شکار نہ کریں جو اپنی خوبصورتی بانٹنے بہت دُور سے آتے ہیں۔ فطرت نے آپ کو جنما ہے اور وہ آپ سے اس کے ساتھ رحم اور پیار سے پیش آنے کی توقع رکھتی ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہماری آنے والی نسلوں کے رہنے کے لیے یہ زمین کوئی پُرسکون اور آرامدہ جگہ نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
- Narrative of a residence at the court of Meer Ali Murad. Vol:1, 1860. Edward Archer Langley.
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔