پاکستان

پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کےخلاف اسد قیصر کی درخواست مسترد

یہ معاملہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکلز کے دائرے میں نہیں آتا، ایف آئی اے کے نوٹس کو کالعدم قرار دیا جائے، درخواست گزار

پشاور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دو بینک اکاؤنٹس کی انکوائری شروع کرنے کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل بینچ نے اسد قیصر کی درخواست کو خارج کرنے کا مختصر حکم سنایا، جس میں ایف آئی اے کی بینک اکاؤنٹ کی تحقیقات اور تفتیشی افسر کی جانب سے انہیں جاری کیے گئے نوٹس کو چیلنج کیا گیا تھا۔

طویل سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل گوہر علی خان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید نے دلائل دیے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو اسد قیصر کے خلاف کارروائی سے روک دیا

عدالت نے اس سے قبل ایف آئی اے کو اسد قیصر کے خلاف کسی بھی قسم کی 'منفی' کارروائی کرنے سے روک دیا تھا، لیکن ان سے کہا تھا کہ وہ انکوائری میں ادارے کے ساتھ تعاون کریں۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر (کمرشل بینکنگ سرکل) پشاور نے 2 اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اس فیصلے کے تناظر میں انکوائری کا حکم دیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز ملے تھے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ 23 جنوری 2010 کو پشاور کنٹونمنٹ کے علاقے میں بینک اسلامی (سابقہ کے اے ایس بی) کی ایک برانچ میں کھولے گئے دو بینک اکاؤنٹس اور پشاور میں حبیب بینک لمیٹڈ کی سپر مارکیٹ برانچ میں یکم اگست 2011 کو کھولے گئے اکاؤنٹ کی انکوائری کے سلسلے میں ایف آئی اے کے انکوائری افسر کے نوٹس کو کالعدم قرار دیا جائے جس کا انتظام 2010 سے 2013 تک پی ٹی آئی کے صوبائی سربراہ کے طور پر ان کے پاس تھا۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات: اسد قیصر کا ایف آئی اے انکوائری کےخلاف عدالت سے رجوع

بیرسٹر گوہر علی نے مؤقف اختیار کیا کہ ای سی پی نے نہ تو کوئی ہدایت جاری کی اور نہ ہی ان کے مؤکل کے خلاف انکوائری کے لیے کیس وفاقی حکومت کو بھجوایا۔

انہوں نے دلیل دی کہ یہ معاملہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 6 (3) اور 2 (سی) (iii) کے دائرے میں نہیں آتا۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ دونوں بینک اکاؤنٹس پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے ہیں اور ان کا پارٹی کی غیر ملکی فنڈنگ سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے دلیل دی کہ ایف آئی اے نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا کیونکہ اس معاملے میں نہ تو کوئی منی لانڈرنگ ہوئی اور نہ ہی بینکنگ سے متعلق کوئی جرم ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات: ایف آئی اے نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو طلب کرلیا

سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے استدلال کیا کہ اگر ایف آئی اے کو ایسے معاملات میں دائرہ اختیار سنبھالنے کا اختیار دیا گیا تو ’فلڈ گیٹ‘ کھل جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ای سی پی کے پاس یہ معاملہ زیر التوا ہے اس لیے ایف آئی اے نے انکوائری شروع کرنے کے لیے غیر قانونی اقدام اٹھایا۔

وکیل نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962 کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 سے تبدیل کیا گیا تھا اور اس کا ایک مقصد کسی سیاسی جماعت کے خلاف فوجداری کارروائی کو ختم کرنا تھا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے پیٹرولیم کمپنی سے متعلق کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ قومی احتساب بیورو کے پاس کمپنی کے خلاف کارروائی کا دائرہ اختیار نہیں تھا اور اس کے بجائے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی متعلقہ ادارہ ہے۔

مزید پڑھیں:پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس:شاہ فرمان ایف آئی اے میں پیش

وکیل نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے تحت اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کوئی پارٹی غیر قانونی فنڈنگ حاصل کرنے میں ملوث ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ فنڈز ریاست کی جانب سے ضبط کیے جاسکتے ہیں لیکن مجرمانہ کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

دوسری جانب عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ای سی پی نے پی ٹی آئی کی ملکیت والے اکاؤنٹس کا نوٹس لیا تھا اور پارٹی کو پہلے ہی نوٹس جاری کردیا تھا، لیکن ایف آئی اے نے اس کی جانب سے مسترد کردہ بینک اکاؤنٹس کا نوٹس لیا تھا۔

انہوں نے دلیل دی کہ معاملے کو ایف آئی اے کو بھیجنے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کیا درخواست گزار کے زیر نگرانی ان اکاؤنٹس میں کوئی غیر قانونی فنڈنگ ہوئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ ایف آئی اے صرف ان بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کر رہی ہے جو پارٹی کی ملکیت نہیں ہیں۔