نقطہ نظر

متاثرینِ سیلاب، ایوارڈ شوز اور ہمارے فنکار

اس سے زیادہ حیرت اور صدمے کی بات کیا ہوگی کہ پاکستانی شوبز کا کوئی بھی فنکار ان سیلاب متاثرین تک عملی طور سے نہیں پہنچا۔

گزشتہ دنوں خوب بارشیں ہوئیں، ہم سب نے حسبِ معمول اس برسات سے خوب لطف بھی اٹھایا۔ کراچی میں بارشوں کی بدولت کبھی کبھار ہلکی پھلکی سیلاب والی کیفیت بھی بن جاتی ہے، چند دن تک سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوتا ہے، روایتی طور پر میڈیا بھی اپنے حصے کا شور مچاتا ہے، لیکن پھر سب کچھ معمول پر آجاتا ہے۔

اس بار بھی برسات کے ابتدائی دنوں میں ایسا ہی ہوا۔ کچھ دن شور و غوغا رہا، پھر کراچی کے منظرنامے پر سکوت چھا گیا، لیکن ملک کے کئی علاقوں میں یہ بارشیں موت کی معاون ثابت ہورہی تھیں اور اکثریت اس بات سے بے خبر تھی۔

گھر کی گواہی

راقم پیشے کے اعتبار سے صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ براڈ کاسٹر بھی ہے، لہٰذا ایک رات کو میں نے معمول کے مطابق ریڈیو کا لائیو شو کیا، اس میں جب کالز موصول ہوئیں تو ان میں ایک کال اندرونِ سندھ سے بھی تھی۔ اس میں سامع مجھے بتا رہا تھا کہ ’حالات اچھے نہیں ہیں، برسات نے سب کچھ ختم کردیا ہے، ہم کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں لیکن پورے ملک میں گویا ایک مہیب سناٹا طاری ہے اور کوئی اس بے سرومانی کو محسوس نہیں کر رہا جس میں ہم مبتلا ہوچکے ہیں‘۔

یہ میرے لیے ٹیلی فون کال نہیں بلکہ پریشان کردینے والی اطلاع تھی۔ اسی طرح جیسے جیسے میڈیا کو خبریں ملتی گئیں، وہ اس سیلاب کی آفت کو بیان کرتے گئے اور کچھ دنوں میں سب کچھ عیاں ہوگیا۔ یوں پورا ملک ان سیلاب متاثرین کی مدد کرنے میں جت گیا۔ سرکاری اقدامات بھی کسی حد تک کیے گئے، فوج اور پاکستانی عوام بھی اس ہنگامی حالت میں متاثرین کی جانیں محفوظ کرنے کے لیے متحرک ہوگئے، لیکن اس بار سیلاب اتنا شدید تھا کہ یہ تمام اقدامات بھی ناکافی ثابت ہوئے۔

ہولی وڈ کی اداکارہ اور سماجی کارکن کی پاکستان آمد

کئی ہفتوں سے ملک بھر میں عوام اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اور خوراک جمع کرکے سیلاب متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔ مختلف فلاحی ادارے اور نجی تنظیمیں بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ جہاں ایک طرف عوام ان سیلاب متاثرین کو ان ہنگامی حالات سے نکالنے کے لیے عملی کوششیں کررہے ہیں وہیں بہت سی نامور شخصیات اپنی بساط کے مطابق اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس فوری طور پر پاکستان آئے اور حالات کا جائزہ لے کر عالمی برادری کو مطلع کیا۔ عالمی فنکار برادری کی طرف سے سب سے پہلے ترک اداکار جلال آل پاکستان پہنچے۔

اس کے بعد سندھ میں سیلاب سے متاثرہ ضلع دادو میں اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی نمائندہ خصوصی اور امریکی اداکارہ انجلینا جولی پہنچیں۔ وہ عملی طورپر متاثرہ علاقوں میں گئیں اور وہاں متاثرین سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے دنیا کو مزید باخبر کیا ہے کہ پاکستان کتنی بڑی آفت میں گھرا ہوا ہے۔

ایسے ماحول میں ظاہر ہے کہ کھیل اور شوبز انڈسٹری کی تفریحات وغیرہ کہیں پیچھے رہ گئیں کیونکہ ہم ایک آفت زدہ ملک میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس دوران مختلف خبریں آتی رہیں کہ معروف سیاسی و سماجی شخصیات بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی طرف سے جب انجلینا جولی نے پاکستان کا دورہ کیا تو عوام کی توجہ مقامی شوبز کی صنعت کی طرف بھی گئی کہ ترکی سے ایک ترک اداکار اور امریکا سے ایک امریکی اداکارہ متاثرہ علاقوں میں پہنچی ہیں مگر ہمارے فنکار کہاں ہیں؟

اکا دکا خبریں ملیں کہ کچھ فنکاروں نے اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنے کی اپنے تئیں کوششیں کیں جس میں پاکستانی گلوکارہ حدیقہ کیانی سرفہرست ہیں، وہ بھی شاید اس لیے کہ وہ پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی سفیر ہیں جنہوں نے پاکستان میں یو این ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر توشیرو تاناکا کے ہمراہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ مجموعی طور پر تو پاکستانی شوبز برادری کی طرف سے صرف زبانی جمع خرچ ہوتا رہا اور اکثریت نے عملی طور پر امدادی کاموں میں حصہ نہ لیا۔

پاکستانی فنکار کہاں ہیں؟

اس سے زیادہ حیرت اور صدمے کی بات کیا ہوگی کہ پاکستانی شوبز کا کوئی بھی فنکار ان سیلاب متاثرین تک عملی طور سے نہیں پہنچا اور کسی نے پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کے پاس جاکر ان سے بات نہیں کی۔

انجلینا جولی نے اندرونِ سندھ میں، دادو شہر کے نواحی علاقوں کا دورہ کیا تو جہاں پوری دنیا تک خبریں پہنچیں وہیں سوشل میڈیا پر عوام نے اپنی فلمی شخصیات کو تلاش کرنا شروع کیا کہ وہ کہاں ہیں، ہرچند کے ان متاثرین میں ایک بہت بڑا طبقہ ان کے مداحوں کا بھی ہوگا۔ چلیں بات یہیں تک محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔

کلاسیکی اردو شاعری کے ایک معروف شاعر مصطفیٰ خان شیفتہ کے بقول۔۔۔

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

عالمی فلمی ستاروں کی اپنے عوام کے لیے فلاحی خدمات

اس پوری صورتحال پر زیادہ افسوس یوں بھی ہورہا ہے کہ دنیا میں ہمیں اس فنکار برادری سے کئی ایسی مثالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔

مثال کے طور پر ان دنوں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے بالخصوص یوکرین میں بحرانی کیفیت ہے۔ لاکھوں افراد، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے بھی شامل ہیں، وہ مختلف علاقوں کو ہجرت کر رہے ہیں، ان کے پاس اشیائے خور و نوش سے لے کر ضروریاتِ زندگی کا دیگر سامان نہیں ہے۔ ان بے گھر لوگوں کے لیے عالمی شوبز برادری اور اسی ملک سے تعلق رکھنے والے شوبز کے فنکار اپنی سی کوششیں کررہے ہیں تاکہ وہ اس کارِ خیر میں عملی طور پر اپنا حصہ ڈالیں اور اپنے عوام کی مدد کریں۔

ایک معروف ویب سائٹ ’گلوبل سٹیزن‘ کی رپورٹ کے مطابق جو فنکار ان بے گھر لوگوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں ان میں معروف امریکی اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو، معروف امریکی ماڈل گیگی ہدید، مقبول ترین برطانوی فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم اور دیگر شامل ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یوکرین کے موجودہ صدر ولادیمیر زیلنسکی پیشے کے اعتبار سے خود ایک اداکار ہیں اور اپنے ملک کی سلامتی کے لیے دن رات کوشاں ہیں، جبکہ ان کے ساتھ ساتھ یوکرین کے معروف شوبز ستاروں میں میکسم چمرکووسکی سمیت دیگر اس مشکل وقت میں اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اسی طرح دنیا بھر میں ہونے والی جنگیں، بیماریاں اور قدرتی آفات جن میں سیلاب، مختلف طوفان اور زلزلے وغیرہ شامل ہیں، ان حالات میں ہر ملک میں وہاں کے شوبز فنکار کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ عام حالات میں بھی وہ سماجی و فلاحی خدمات انجام دیتے ہیں۔ بے شک باضمیر قوموں کے فنکار بھی اپنی سماجی ذمے داری کو محسوس کرتے ہیں۔

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

اس پس منظر میں جس چیز نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا وہ پاکستانی شوبز برادری کا کینیڈا میں ہونے والا ایک ایوارڈ شو ہے، جس کے لیے پاکستان سے ایک پورا جہاز بھر کر کینیڈا پہنچا۔ چلیے آپ نے ایوارڈ شو کرنا تھا کرلیا، مگر اب اس کی تصاویر اور فنکاروں کے جلوے دکھائی دے رہے ہیں اور اس گلیمر کے شور میں سیلاب متاثرین کا دکھ دم توڑ رہا ہے۔

کیا ہمارے لیے یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ دنیا بھر سے فلاحی کام کرنے والے افراد بشمول فنکار پاکستان آرہے ہیں اور ہمارے فنکار موج میلہ کرنے کینیڈا جا پہنچے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جب زیادہ لعن طعن ہوئی تو انہوں نے اعلان کردیا کہ اس ایوارڈ شو کی آمدن کا ایک بڑا حصہ سیلاب زدگان کو دیا جائے گا۔

یہ بات اس لیے بھی سمجھ نہیں آرہی کہ سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے لیے اتنی دُور جانے کی کیا ضرورت تھی، جتنا خرچہ اس آمد و رفت اور وہاں سکونت اختیار کرنے پر کیا ہے، صرف وہی سیلاب زدگان کو دے دیتے تو شاید بہت سوں کا بھلا ہوجاتا۔ اگر نہ بھی دیتے تب بھی شکوہ مدد نہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ اس رویے کا ہے کہ ان کو اپنے ان ہم وطنوں کا درد محسوس نہیں ہوا جن کی وجہ سے یہ اسٹار بنتے ہیں۔

اس وقت دونوں طرف خاموشی کا شور ہے، ایک طرف دکھ کی خاموشی تو دوسری طرف سفاکیت کی۔ اس تناظر میں مجھے اردو کے معروف شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کا مندرجہ ذیل شعر پوری صورتحال کی تفسیر محسوس ہوا کہ

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔