لائف اسٹائل

ہمیں سمجھنا ہوگا ’ٹرانس جینڈر‘ خواجہ سرا نہیں ہوتے، ماریہ بی

خواجہ سرا‘ پیدائشی طور پر بعض پیچیدگیوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں جنہیں مخنث کہتے ہیں، فیشن ڈیزائنر

فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پہلے پاکستانی سیاستدانوں اور افراد کو ’ٹرانس جینڈرز‘ اور ’خواجہ سرا‘ افراد میں فرق کو سمجھنا ہوگا۔

انہوں نے اپنی بہنوں ناجیہ اور عافیہ کے ساتھ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں تینوں بہنوں نے مذکورہ معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگوں کو ’ٹرانس جینڈرز‘ اور ’خواجہ سرا‘ میں فرق ہی معلوم نہیں۔

ماریہ بی نے ویڈیو کے آغاز میں کہا کہ بطور والدین انہیں اپنے بچوں سے متعلق پریشانی ہے اور وہ ان کے محفوظ اور بہتر مستقبل کے لیے چاہتی ہیں کہ لوگ ’ٹرانس جینڈرز‘ اور ’خواجہ سرا‘ کے فرق کو سمجھیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ’ٹرانس جینڈرز‘ خواجہ سرا نہیں ہوتے۔

ماریہ بی کے مطابق ’خواجہ سرا‘ قدرتی اور پیدائشی طور پر بعض پیچیدگیوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں جنہیں ہم مخنث کہتے ہیں اور انگریزی میں انہیں ’انٹر سیکس‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہرب معز اعوان خاتون کے روپ میں مرد ہیں، ماریہ بی

فیشن ڈیزائنر نے مزید کہا کہ ’ٹرانس جینڈرز‘ پیدائشی طور پر مخنث پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک مرد یا خاتون کے طور پر پیدا ہوتے ہیں اور بعد ازاں اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرواتے ہیں اور ایسے افراد کچھ سال بعد دوسری بار بھی اپنی جنس تبدیل کرواتے ہیں۔

انہوں نے مثال دی کہ معروف ٹی وی اسٹار کم کارڈیشین کے والد کیٹلین جینر جو پہلے اداکارہ کے باپ تھے، بعد میں انہوں نے اپنی جنس تبدیل کروائی اور اداکارہ کی ماں بن گئے، ایسے لوگوں کو ہی ’ٹرانس جینڈر‘ کہا جاتا ہے اور انہیں ’خواجہ سرا‘ سے ملانا غلط ہے، ایسے عمل سے مخنث افراد کے حقوق کی حق تلفی ہوگی۔

فیشن ڈیزائنر کی بہنوں نے بھی بتایا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ’ٹرانس جینڈرز‘ دراصل ’خواجہ سرا‘ نہیں ہوتے اور ایسے لوگوں کی جنس کو واضح نہ کرنے سے نئی نسل کے لوگ غلط نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔

تینوں بہنوں کا کہنا تھا کہ ’خواجہ سرا‘ کو اسلام میں حقوق حاصل ہیں اور انہیں پاکستانی آئین میں بھی ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں مگر ’ٹرانس جینڈرز‘ کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا اور جو 2018 میں قانون بنایا گیا، وہ غلط تھا۔

تینوں بہنوں نے ’ٹرانس جینڈرز ایکٹ 2018‘ کی جانب اشارہ دیا، جسے دونوں ایوانوں سے منظور کرایا گیا تھا اور حال ہی میں جماعت اسلامی کی جانب سے مذکورہ قانون میں ترمیم کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے عدالت میں رجوع کیے جانے کے بعد مذکورہ ایکٹ سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر بھی زیر بحث آیا اور 26 ستمبر کو اس کے ترمیمی ایکٹ 2022 کے بل کو سینیٹ میں بھی پیش کیا گیا تھا، جسے سینیٹ کی کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔

’ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018‘ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں بھی کیس زیر سماعت ہے اور اس پر سوشل میڈیا پر بھی زبردست بحث جاری ہے۔

جہاں لوگ ’ٹرانس جینڈرز‘ کو بھی ’خواجہ سرا‘ جیسے حقوق دینے کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہیں لوگ یہ بھی کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ دونوں افراد میں فرق کو سمجھنا ہوگا، دونوں الگ نوعیت کے افراد ہیں، انہیں ایک ہی کیٹیگری میں شمار کرنا غلط ہوگا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں سماعت، متعدد افراد کو فریق بننے کی اجازت

ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا، وفاقی وزیرقانون

سینیٹ اجلاس: ٹرانس جینڈر ترمیمی بل 2022 کمیٹی کے سپرد