کوئی بھی حکومت ہو جبر کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوں گا، شہباز گل
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے سابق چیف آف اسٹاف شہباز گل نے اپنے قائد کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری حکومت ہو یا کسی اور کی ریاستی جبر کے خلاف بلاتفریق مظلوم کا ساتھ دوں گا۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے یوٹیوب چینل پر پہلے بیان میں تمام پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جب میرے اوپر بدترین ریاستی جبر کیا جارہا تھا تو آپ میرے ساتھ کھڑے تھے اور میرے لیے آواز بلند کی۔
مزید پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ : اسلام آباد ہائیکورٹ کا شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے کارکنوں کے پیچھے ایسے کھڑے ہوئے جیسے ایک سرپرست ہوتا ہے اور مشکل وقت میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔
انہوں نے کہا کہ دوران حراست میرے اوپر جس طرح کا ریاستی تشدد ہوا وہ کوئی راز نہیں ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
‘میرا سوفٹ ویئر اپڈیٹڈ تھا’
شہباز گل نے کہا کہ تمام محب وطن پاکستانیوں کی طرح میرا بھی پاکستان اور اس سے محبت کرنے کا سوفٹ ویئر بہت پہلے سے اپڈیٹڈ تھا بلکہ میری طرح گاؤں میں پیدا ہونے والوں کا وطن سے محبت کا سوفٹ ویئر بچپن سے ہی اپڈیٹڈ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ اس سارے واقعے میں میرے ہارڈویئر کو بار بار اپڈیٹ کیا گیا اور اس کے ذریعے سوفٹ ویئر کرپٹ کرنے کی کوشش کی گئی جو شاید دل کا رشتہ ہو تو کرپٹ نہیں بلکہ اپڈیٹڈ رہتے ہیں۔
‘میڈیا ہاؤسز نے میری صحت کا مذاق اڑایا’
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کا علمبردار کہنے والے میڈیا ہاؤسز نے میرے اوپر ہونے والے تشدد اور میری صحت کا مذاق اڑایا، جس دن میں عدالت آیا تو ایسی دوائی انجکشن میں لگی ہوئی تھی مجھے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کیا ہو رہا تھا، بس میرا سانس گھٹ رہا تھا اور ماسک مانگ رہا تھا اور اس سارے واقعے کا مذاق اڑایا۔
مزید پڑھیں: 'افواج پاکستان نے شہباز گل کے خلاف مقدمے میں شکایت نہیں کی'
شہباز گل نے مخالفین کے بارے میں کہا کہ اگر میں اس لیے ناپسند تھا کہ میں سخت بولتا تھا تو کسی کے ساتھ سخت بولا ہے تو اس کے لیے قانون موجود ہیں، اس کے لیے تشدد پر خوش ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر کہیں حیوانیت موجود ہے جس سے آپ محظوظ ہوتے ہیں۔
‘کسی پر بھی ریاستی جبر ہوگا تو شہباز گل مظلوم کے ساتھ ہوگا’
انہوں نے کہا کہ میرا وقت گزر گیا لیکن اور لوگوں کا وقت آسکتا ہے، میری دعا ہے کسی بھی مظلوم کو اس حیوانیت سے بچائے اور یہ دوا سے نہیں بلکہ اللہ سے دعا کے ذریعے ٹھیک ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں آج ایک پھر آپ سے وعدہ اور اعادہ کرتا ہوں جیسے میرے اوپر لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں حملہ ہوا تھا، جس کے بعد میں نے کیا تھا اور جب میری گاڑی الٹا دی گئی تھی اور میں مرتے مرتے بچ گیا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی ضمانت کی تصدیق کروانے کے دوران پریس کانفرنس میں یہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے جعلی ایف آئی آر پر مظفرگڑھ سے حوالات میں ڈال دیا گیا تھا اور وہاں سے رہا ہونے کے بعد میں نے وعدہ کیا تھا، آج پھر وہ دہراتا ہوں اور میرا آپ سے وعدہ ہے کہ آپ بھلے میرے ساتھیوں میں سے ہوں یا میرے مخالفین میں سے ہوں، آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو یا کسی مذہب، ذات یا قومیت سے ہوں اور آپ پر خدانخواستہ ریاستی جبر ہو رہا ہوگا، کبھی کوئی ظلم ہو رہا ہوگا تو میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل تشدد کیس: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت، تفتیشی افسران کو نوٹسز جاری کردیے
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ بھلے ہماری حکومت میں یا کسی اور حکومت میں آپ کے اوپر ایسا جبر ہو رہا ہو، میری مستقل لائن ہے کہ کسی صورت ریاستی جبر یا کسی قسم کا جبر نہیں کیا جانا چاہیے اور قانون کی عمل داری ہونی چاہیے، اس لیے دوبارہ وعدہ دہراتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ اگر آپ کبھی ایسی مشکل میں پھنسے ہوں گے تو شہباز گل آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
‘روایتی انداز میں عمران خان کے ساتھ جدوجہد جاری رکھوں گا’
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی آرام دہ زندگی چھوڑ کر پوری دل و جان سے عمران خان کے پیچھے پاکستان کی خدمت کرنے آیا اور جب عمران خان کا دفاع کر رہا تھا تو اس وقت کام عمران خان کر رہا تھا اور ان کی توجہ ہٹانے والے محاذ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میرا وعدہ ہے کہ میں نے جس جوش جذبے کے ساتھ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی یہ جنگ عمران خان کے پیچھے شروع کی تھی، یہ جاری رہے گی اور میری جدوجہد جاری رہے گی۔
شہباز گل نے کہا کہ جس شہباز گل کو آپ جانتے ہیں، میرے اپنے فطری اور روایتی انداز میں جلد دوبارہ بات ہوگی۔
شہباز گِل کے خلاف مقدمہ
شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے (بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز توسیع کی استدعا مسترد
شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا، دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔
16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے اسی دن سننے کا حکم دیا تھا۔
17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل نے درخواست ضمانت دائر کردی
19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا، 22 اگست کو ان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا، 2 روز بعد 24 اگست کی سماعت میں مزید 7 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی اسلام آباد پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
بعد ازاں 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے 6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ شہباز گل کا بیان لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ تھا، سیاسی جماعت کے ترجمان اور ماہر تعلیم ہونے کے دعویدار سے لاپرواہ بیان کی امید نہیں تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا گیا کہ افواج پاکستان کی جانب سے مقدمے میں کوئی شکایت نہیں کی گئی، افواج پاکستان کا نظم و ضبط اتنا کمزور نہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کے لاپرواہ بیان سے متاثر ہوجائے، پولیس کوئی شواہد نہیں دے سکی کہ شہباز گل نے بیان سے پہلے یا بعد میں کسی افسر یا سپاہی سے رابطہ کیا۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت عالیہ نے کہا تھا کہ شہباز گل سے تفتیش مکمل ہوچکی، مزید جیل میں نہیں رکھا جاسکتا، شہباز گل کو مزید جیل میں رکھنا بےسود ہوگا بلکہ ٹرائل سے پہلے سزا دینا ہوگا۔
شہباز گل کا متنازع بیان
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔
اس سے قبل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔
اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست، مداخلت نہیں کر سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ
ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔
شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔
پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔