معافی نہ مانگنے سے مانگنے تک کا سفر: عدالت میں کیا کچھ ہوتا رہا
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کو توہین عدالت کے مقدمے میں نا، نا کرتے آخر معافی مانگنا پڑی، کیونکہ وہ ابھی سیاسی مستقبل سے مایوس نہیں ہوئے اور انہیں لگتا ہے شاید کوئی اور پھر سے انہیں پرانی گدی واپس دلا سکتا ہے۔
یہ 22 اگست کا دن تھا جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے ساتھی ججوں سے مشاورت کے بعد عمران خان کی طرف سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف نازیبہ اور دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے پر نوٹس لیا اور جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میان گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا۔ عدالت عالیہ نے اگلے دن یعنی 23 اگست کو اس نوٹس پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ابتدائی نوٹس بھی جاری کیے گئے۔
اس معاملے کا پس منظر سب کو معلوم ہے اگر نہیں معلوم تو بیان کیے دیتے ہیں۔ دراصل سابق وزیرِاعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو فوج کے خلاف ایک متنازعہ بیان دینے پر اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا، 2 دن کا پولیس ریمانڈ مکمل ہونے پر شہباز گل کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ پولیس نے اس عدالتی ریمانڈ کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تو عدالت عالیہ نے مقدمہ واپس ایڈیشنل سیشن جج کو بھیج دیا۔ 19 اگست کو ایڈیشنل سیشن جج نے شہباز گل کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں داخل کروانے کا حکم دے دیا، جس پر تحریک انصاف نالاں تھی کیونکہ اڈیالا جیل میں سابق چیف آف اسٹاف خوش تھے۔
شہباز گل کی گرفتاری، مبیّنہ تشدد اور پولیس ریمانڈ کے خلاف تحریک انصاف کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم نے دارالحکومت کے آئی جی پولیس اور ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کا نام لیتے ہوئے دھکمی آمیز لہجے میں ایسے الفاظ استعمال کیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اس پر نوٹس لینا پڑا۔
اس معاملے پر عدالت نے آبزرویشنز بھی دی ہیں۔ جس دن یعنی 22 اگست کو ہائیکورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا اسی دن عدالتِ عالیہ نے عمران خان اور ان کی جماعت سے جڑی مختلف زیرِ التوا درخواستوں پر اہم فیصلے بھی دیے۔ عمران خان کے خلاف نااہلی کی درخواست کو اسی دن عدالت نے خارج کردیا، ایک درخواست میں ہائیکورٹ نے شہباز گل پر مبیّنہ تشدد کی تحقیقات کے لیے عدالتی تحقیقات کا حکم صادر فرمایا۔ البتہ مقامی عدالت نے اسی دن شہباز گل کو مزید 2 دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
عمران خان کے خلاف توہین عدالت نوٹس کے مقدمے کی پہلی سماعت 23 اگست کو ہائیکورٹ کے 3 معزز ججوں نے کی۔ اس بینچ کے سربراہ جسٹس محسن اختر کیانی تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عمران خان کی متنازعہ تقاریر کا رکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ ان کے بقول عمران خان نے ملک کے تمام آئینی اداروں، ان سے جڑی شخصیات اور حکومتی سربراہ یا وزرا کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اس لیے ایڈووکیٹ جنرل عدالت کے اطمینان اور اپنا مقدمہ مضبوط انداز میں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن عدالت نے انہیں روک دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ مبیّنہ ملزم اور عدالت کے مابین ہے اس لیے اس کو عدالت خود ڈیل کرے گی۔
پہلی سماعت پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ معاملہ صرف اسلام آباد کا نہیں، پورے پاکستان میں ماتحت عدلیہ کے جج کام کر رہے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ‘کیا جب فیصلہ کسی کے خلاف آجائے تو پھر اس کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جائے گی؟’
ایڈووکیٹ جنرل کی تجویز پر پہلے دن ہی عدالت نے سابق وزیرِاعظم عمران خان کو نوٹس نہیں شوکاز نوٹس جاری کرکے جواب طلبی کی۔ عدالت نے معاملے کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے ہائیکورٹ کے مزید ججوں کو بینچ میں شامل کرنے کی سفارش بھی کردی اور مقدمے کی سماعت 31 اگست تک ملتوی کردی۔
عدالت عالیہ نے پیمرا سے عمران خان کی تقریر کا رکارڈ اور متن طلب کیا اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
31 اگست سے پہلے یعنی توہین عدالت کیس کی پہلی سماعت کے تحریری فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ عدالتی تعطیلات مکمل کرکے واپس ہائیکورٹ آچکے تھے اور انہوں نے 3 ججوں کی سفارش پر اپنی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل ایک نیا بینچ تشکیل دے دیا۔ نئے ججوں میں چیف جسٹس خود اور جسٹس طارق جھانگیری کو شامل کیا گیا۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کو اس مقدمے کا شوکاز نوٹس ملا لیکن وہ ماضی کے تمام سیاسی و عدالتی تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بار قانون سے قانون کی زبان میں بات کرنے کا سوچے ہوئے تھے۔ انہوں نے اس شوکاز نوٹس کے بعد آئین اور قانون پر دسترس رکھنے والے، بار کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی اور کئی قانونی کتابوں کے مصنف حامد خان کو اپنے دفاع پر راضی کرلیا۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے دوران تحریک انصاف کے سابق رہنما اور قومی اسمبلی کی نشست کے لیے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر حامد خان اور عمران خان کی راہیں جدا تھیں، لیکن اس مشکل گھڑی میں حامد خان نے عمران خان کو اکیلا نہیں چھوڑا۔
مانا جاتا ہے کہ حامد خان نے ضرور عمران خان کو یہ مفید مشورہ دیا ہوگا کہ اس میں معافی تلافی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں، لیکن ابتدا میں خان صاحب نے ایسے کسی مشورے پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
توہین عدالت کا شوکاز نوٹس چونکہ عمران خان صاحب کو ان کی سیکیورٹی پر مامور پولیس افسر کے ذریعے مل چکا تھا اس لیے عمران خان کے پاس عدالت میں پیش نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس سماعت سے پہلے انہوں نے عدالت عالیہ میں شوکاز نوٹس کا پہلا جواب 30 اگست کو جمع کروا دیا۔ عام طور پر توہین عدالت کے مقدمات میں پہلے ہی مرحلے پر مبیّنہ ملزم سزا اور عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے معافی تلافی کرکے جان چھڑا جاتے ہیں، لیکن یہاں مبیّنہ ملزم عمران خان کا جمع کردہ جواب حیران کن تھا، اور اس سے بھی زیادہ حیران کرنے والی بات اس بیان پر حامد خان کے دستخط تھے۔
اس جواب سے لگ رہا تھا کہ عمران خان ڈٹ جانے والوں کا مشورہ مان کر حامد خان کو ان کی رضامندی کے بغیر عدالت میں گھسیٹ رہے ہیں۔ اس جواب میں عمران خان نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو میں اپنے الفاظ واپس لینے کو تیار ہوں۔ انہوں نے اپنے جواب میں معافی لفظ کا استعمال تو درکنار بلکہ اپنی تقریر کو درست قرار دینے اور اس پر نوٹس لینے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے اپنے جواب میں یہ بھی لکھا کہ ‘میں ججوں کے احساسات مجروح ہونے پر یقین نہیں رکھتا، میری تقریر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، اگر الفاظ نامناسب ہیں تو وہ واپس لینے کو تیار ہیں’، گویا وہ عدالت کو بارگیننگ کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمران خان نے جس دن جواب داخل کیا تھا اسی دن ہائیکورٹ نے ان کی تقاریر کو براہِ راست نشر کرنے پر عائد پابندی کو ختم کردیا اور پیمرا سے جواب طلبی کی۔ 30 اگست کو ہی اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے اس خصوصی سماعت کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق پر مبنی سرکلر جاری کیا، جس میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مدِنظر رکھ کر وکلا اور صحافیوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے عدالتی دروازے بند کردیے گیے تھے۔ رجسٹرار آفس نے مخصوص لسٹ میں شامل لوگوں کے علاوہ لارجر بینچ تک کسی کو رسائی نہیں دی۔
31 اگست کو عدالت کی سماعت کے دوراں ہائیکورٹ کے آس پاس ہُو کا عالم تھا۔ چیف جسٹس بلاک کو قناطیں لگا کر باقی عدالتی احاطے سے منقطہ کرلیا گیا۔ اندر اور باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز کو ملا کر کوئی ایک ہزار کے لگ بھگ اہلکار سیکیورٹی پر مامور کیے گئے تھے۔
یہ سماعت دن ڈھائی بجے مقرر کی گئی تھی۔ سوا 2 بجے عمران خان اپنی گاڑی میں سے نمودار ہوئے۔ ہائیکورٹ میں یہ ان کی پہلی طلبی تھی۔ وہ بہت خوش اور ہشاش بشاس تھے۔ اپنے ساتھیوں سے محو گفتگو اور صحافیوں کے سوالات کو نظر انداز کرتے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بکھیرتے عدالتی کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عمران خان جس دن سے وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے الگ ہوئے ہیں انہوں نے میڈیا کے سامنے کوئی کھلی پریس کانفرنس یا گفتگو نہیں کی، لہٰذا کورٹ رپورٹرز نے یہ موقعہ غنیمت جان کر ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ ان سے کئی اہم سوالات کیے گئے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ عدالت کو کیا کہیں گے تو ان کا جواب تھا جو کہنا تھا وہ عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔ ان کا شکوہ تھا کہ سمجھ نہیں آتی اتنا خوف کیوں ہے، سارے راستے بند ہیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ ایڈیشنل جج صاحبہ ڈری ہوئی ہیں تو خان صاحب نے جواب دیا کہ میں نے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کا کہا تھا۔
عمران خان عدالت میں آچکے تھے اور ان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر تھے اور ہائیکورٹ بار کے صدر خان صاحب کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ اب یہاں سے عدالتی کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ چیف جسٹس نے پہلے تو عمران خان کے وکیل حامد خان کو خوش آمدید کہا اور پھر انہوں نے عمران خان کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب پر اپنی آبزرویشن دینا شروع کردی کہ ‘آپ سے اس قسم کے جواب کی امید نہیں تھی’۔
چیف جسٹس صاحب ماتحت عدالت کی عمارت اور ماتحت عدالتوں کے مسائل کے حل کے لیے عمران خان کی بطور وزیرِاعظم تعریف بھی کر رہے تھے، لیکن داخل کیے گئے جواب کو 5 ججوں نے نہ قبول کیا نہ مسترد بلکہ جسٹس میان گل حسن اورنگزیب نے جب یہ فرمایا کہ یہ کارروائی تو آج ہی ختم ہوسکتی تھی لیکن آپ کے جواب کی وجہ سے اسے آگے لے کر جانا پڑے گا۔ جس کا مطلب تھا کہ عدالت کو ملزم سے معافی کی توقع تھی۔ پھر چیف جسٹس نے کُھل کر بیان کیا کہ ‘ہم سمجھ رہے تھے خان صاحب اپنے بیان پر شرمندہ ہوں گے، انہیں کوئی پچھتاوا ہوگا’۔ عمران خان کے وکیل معافی سے ہٹ کر بینچ پر اعتراض کا مدعا اٹھا بیٹھے، یعنی معافی تو ایک طرف خان صاحب نے عدالتی اختیارات کو بھی اپنے جواب میں چیلنج کیا ہوا تھا۔
حامد خان کے کمزور پڑتے دلائل جاری تھے کہ ایڈووکیٹ جنرل نے لقمہ دیا کہ ان کی پارٹی کے ایک رہنما فواد چوہدری تو یہ فرما رہے ہیں کہ اس معاملے پر ججوں کو معافی مانگنی چاہیے، جس پر حامد خان نے کہا کہ اس بیان سے پارٹی یا عمران خان کا کوئی تعلق نہیں ہے، ایسے شخص سے کسی اچھائی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔
ایک گھنٹے تک عدالت عمران خان کے وکیل حامد خان کو سمجھاتی رہی کہ ایسے مقدمات میں معافی ہی مانگی جاتی ہے، ملزم خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے۔ اب حامد خان کے لیے مشکل یہ تھی کو وہ عدالت کو کیسے بتائیں کہ ان کا بھی خیال یہی ہے۔ حامد خان اس جواب کو درست بھی نہیں کہہ رہے تھے غلط بھی نہیں مان رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم معاملے کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔
پہلی قطار میں بیٹھے عمران خان کی تسبیح ان کی انگلیوں میں گھوم رہی تھی، وہ سب کچھ سن رہے تھے، کچھ ہضم کر رہے تھے اور کچھ باتیں نگلنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ وہ شاید اس کشمکش میں تھے کہ کیا کرنا چاہیے، ڈٹے رہنا چاہیے یا معافی مانگ کر جان کی امان پانی چاہیے۔
اس سماعت میں چیف جسٹس نے توہین عدالت سے لے کر تحریک انصاف کی شکوہ شکایات اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز تک سب باتوں پر اپنی آبزرویشن دیں۔ تحریک انصاف کی رات کو عدالت کھلنے والی شکایت پر جواب بھی دیا اور وہ جواب خود ایک بڑی اسٹوری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف والے ہمیشہ کہتے ہیں کہ عدالت رات کو 12 بجے کیوں کھلی، میں جواب دیتا ہوں۔ وہ رکے اور پھر بولے، ‘رات کو عدالت کا کھلنا ایک واضح پیغام تھا کہ پھر سے 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ نہ ہوجائے’۔
بہرحال ڈیڑھ گھنٹے کی اس سماعت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور عدالت نے توہین عدالت کے مرتکب مبیّنہ ملزم کو دوبارہ جواب دائر کرنے کے لیے ایک ہفتے کا مزید وقت دے دیا۔
توہین عدالت کے مقدمات میں یہ مشق عام نہیں ہوتی۔ عام طور پر پہلی سماعت پر ملزم معافی مانگتا ہے اور حلفیہ بیان جمع کرواتا ہے، اور اس کے بعد بھی عدالت کا صوابدید ہے کہ معافی کی درخواست قبول کرے یا مسترد، لیکن جو بھی ہوتا ہے وہ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوتا ہے۔ کسی ملزم کو دوبارہ جواب دائر کرنے کا موقع یا مہلت نہیں ملتی، کہیں تو معافی مانگنے پر بھی سزا ہوجاتی ہے۔ نہال ہاشمی کے معاملے میں ایسا ہی ہوا تھا۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ایسے مقدمات میں مدعی عدالت خود ہوتی ہے، ملزم کے ایک بار دائر جواب پر یا معافی سے انکار پر عدالت فیصلہ سنا دیتی ہے۔ لیکن اب عمران خان والے معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور کافی کچھ مختلف ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
آخرکار عدالت کی طرف سے عمران خان کو دوبارہ جواب دائر کرنے کی مہلت دی گئی جو ان کے وکیل کی استدعا بھی نہیں تھی۔ ملزم کے وکیل کو عدالت نے توہین عدالت کے مشہور مقدمات کا حوالہ دے کر سمجھایا اور ان کو سامنے رکھ کر جواب تیار کرنے کی سہولت فراہم کی گئی، عدالت نے سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کرکے 3 بڑے نامور وکلا کو عدالتی معاونین مقرر کردیا۔
اس سماعت کے بعد عمران خان خوش خوش باہر نکلے مگر میڈیا سے بات کرنے کے بجائے گاڑی کی طرف چل دیے۔
31 اگست کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں ہائی کورٹ نے کہیں نہیں لکھا کہ عمران خان کے جواب کو مسترد کیا جاتا ہے، بس عدالت عالیہ نے تحمل کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں اس لیے انہیں جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی ہے۔
یہ سماعت اہم تھی کیونکہ اس سے ایک دن پہلے یعنی 7 ستمبر کو عمران خان نے عدالت میں اپنا دوسرا جواب داخل کروایا تھا۔ واضح رہے کہ 5 ججوں نے گزشتہ سماعت پر اعتراض ہی یہ کیا تھا کہ جواب میں معافی کا ذکر نہیں لیکن مزے کی بات یہ کہ دوسرے جواب میں بھی عمران خان نے عدالت سے معافی نہیں مانگی بلکہ انہوں نے سخت افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے لکھا کہ اگر خاتون جج کو ان کے الفاظ سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں سخت افسوس ہوا ہے۔ اس جواب میں ججوں اور عدلیہ کی عزت اور احترام کی کئی باتیں تھیں لیکن اگر کوئی لفظ نہیں تھا تو وہ معافی کا لفظ تھا۔
اس دوسری سماعت پر بھی عمران خان مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے پہنچے. عدالت کے باہر اس دن بھی کرفیو کا سماں تھا اور ہائیکورٹ کے احاطے کی دکانیں بند کروا دی گئی تھیں۔ سماعت کے موقع پر تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی رہنما و وزیر مشیر بھی عدالت میں آنا چاہ رہے تھے لیکن فواد چوہدری، زلفی بخاری، وسیم شہزاد، ہاشم ڈوگر، راجا بشارت، سبطین خان، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور پختونخوا اسمبلی کے کئی ممبران کو عدالت کے اندر جانے کی اجازت نہ مل سکی۔
اس سماعت میں عدالت کے سامنے حامد خان نئے جواب کے ساتھ پیش ہوئے۔ عدالتی معاونین منیر اے ملک، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کے اختر حسین اپنے ساتھ اپنی آرا لے کر آئے تھے۔
عدالت نے پہلے حامد خان کے دلائل سنے۔ حامد خان نے احترام کے ساتھ عدالت کو کہا کہ ہم نے اپنی گزارشات پیش کردی ہیں، عدالت اس معاملے کو دیکھے اور نوٹس واپس لے۔ ان کے دلائل تھے کہ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کے توہین عدالت مقدمات اس مقدمے سے الگ ہیں، بڑی لمبی بحث ہوئی اور عدالت اس نئے جواب سے بھی مطمئن نظر نہیں آ رہی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی، یہ کرمنل سائیڈ کی توہین عدالت ہے، اس کے نتائج نکل سکتے ہیں۔ سابق وزیرِاعظم کہہ رہے ہیں کہ انہیں قانون کا علم نہیں اور آپ اپنے الفاظ پر توجہیات پیش کر رہے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے کہا ان کے خلاف ہم فیصلے دیں گے تو وہ ہمیں بھی ایسی دھمکیاں دیں گے؟
عمران خان نے دورانِ سماعت ہائیکورٹ بار کے صدر کے ذریعے حامد خان کو پیغام بھیجا کہ وہ روسٹرم پر آنا چاہتے ہیں۔ پہلے تو حامد خان نے اسے نظر انداز کردیا۔ مگر جب ججوں کے سوالات اور حامد خان کے جواب پر اعتراضات بڑھنے لگے تو خان صاحب اپنی کرسی پر کافی بے قراری محسوس کرنے لگے اور انہوں نے پھر سے عدالت سے مخاطب ہونے کے لیے اپنے وکیل کو درخواست کی۔
اس سماعت میں 3 میں سے 2 معاونین نے عمران خان کو معاف کرنے کی رائے دی اور ان کے جواب کو معافی نامہ سمجھنے کی استدعا بھی کی جبکہ پاکستان بار کے وکیل نے کہا کہ ملزم اگر معافی مانگتا تو شاید میں بھی ان کو معافی دینے کی رائے دیتا لیکن وہ معافی مانگ نہیں رہا تو عدالتی کارروائی درست ہے۔
اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ عمران خان نے 2014ء میں سپریم کورٹ کو معافی نامہ دے کر کہا تھا کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے لیکن انہوں نے ایک بار پھر وہی کام کیا اور وہی طریقہ کار اپنایا ہے۔ بار بار ان کو معافی نہیں ملنی چاہیے۔
یہ سماعت 3 گھنٹے تک چلتی رہی، عدالت بار بار حامد خان کو یہ بات سمجھاتی رہی کہ آپ کا چھٹکارا معافی میں ہی ہے۔ جب دلائل ختم ہوئے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تو عمران خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر عدالت کو کہنے لگے کہ مجھے کچھ کہنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام وکلا کو سن چکے ہیں، عدالت نے کچھ دیر کے لیے وقفہ لیا اور عمران خان صحافیوں کو یہ کہتے سنے گئے کہ میرا مؤقف ہی نہیں سنا گیا۔
جاتے جاتے چیف جسٹس صاحب یہ کہتے گئے کہ عدالتی کارروائی کے دوران کسی بھی موقع پر معافی نامہ آجائے تو عدالت اس پر غور کرسکتی ہے، یہی وہ دورازہ تھا جس کو عام ملزم پر بند رکھا جاتا ہے۔ عدالت نے وقفے کے بعد عمران خان کی معافی کو غیر تسلی بخش قرار دے کر 22 ستمبر کو توہین عدالت مقدمے میں فرد جرم لگانے کا فیصلہ کیا۔ کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فرد جرم لگانے کا فیصلہ کرنے کے بعد عدالت عام طور پر معافی کو قبول نہیں کرتی، بالکل ایسا ہوگا، لیکن وہ ملزم عام ہوں گے شاید، اس مقدمے میں معافی کے دروازے کو کبھی بند نہیں کیا گیا تھا۔
فرد جرم کے فیصلے نے عمران خان کو خاصا پریشان کردیا تھا اور دبنگ انٹری دینے والے خان صاحب واپسی میں جنگ میں شکست خوردہ کسی سپاہی کی طرح چل رہے تھے۔ انہوں نے صحافیوں کے کئی سوالات کا بس ایک جواب دیا کہ اب کیا ہوگا انہوں نے فیصلہ ہی کردیا ہے، عدالت کے اندر بھی وہ یہ شکوہ کر رہے تھے کہ مجھے سن تو لیتے، کچھ کہنے کا پس منظر ہوتا ہے، یعنی آخر تک وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہے، یعنی معافی نہیں مانگی لیکن اگلی سماعت تک۔
ہائیکورٹ نے اہم سماعت سے ایک دن پہلے سخت سیکیورٹی کا سرکلر جاری کر رکھا تھا۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے مبیّنہ توہین کے ملزم عمران خان کو طلب کیا اور ان کے وکیل کو یہ کہہ کر بیٹھ جانے کی ہدایت کی گئی کہ آج صرف فرد جرم پڑھ کر سنائی جائے گی۔ عمران خان بطور مبیّنہ ملزم فرد جرم سننے کے لیے کھڑے ہوتے اس سے پہلے ان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ میرے موکل عدالت سے کچھ کہنا چاہتے ہیں جس پر عدالت نے انہیں اجازت دی اور پھر خان صاحب نے معافی مانگ لی۔
یاد رہے کہ اسی دن فواد چوہدری نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ججوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عمران خان بڑا اور مقبول سیاستدان ہے۔ فواد چوہدری شاید پرانے حریف حامد خان کو نیچا دکھانے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان باتوں پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو 3، 3 گھنٹے بے بسی کے عالم میں عدالت میں بے قرار اور پریشان حالات میں دیکھا گیا ہے جو ان کے مزاج کے بالکل برعکس ہے۔
بہرحال عمران خان نے عدالت سے باہر نکل کر اس بار میڈیا سے بات بھی کی اور واضح کردیا کہ وہ حقیقی آزادی کے خلاف مافیا سے لڑائی لڑ رہا ہوں مگر کچھ ہوجائے عدالت سے کوئی جنگ نہیں لڑنی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عدالت اس معافی نامے کو قبول کرے گی جو ابھی دائر ہونا ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ کہ اگر عمران خان معافی نہیں مانگتے تو کیا ہوتا؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ عدالت خود کہہ چکی ہے کہ وہ توہین عدالت کے معاملے کو مناسب تصور نہیں کرتے، عدالت زبان سے نکلی معافی پر ان کی تعریف کرنے سے رہ نہ سکی اور پھر عدالت کا پورا زور ملزم کو اپنی غلطی کا احساس دلوانا تھا، اور یہ مقصد حاصل کرلیا گیا ہے۔ معافی نامہ جمع ہونے کی صورت میں اسے مسترد کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر اس لیے ہیں کہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو ملزم کو اتنے مواقع ہی نہ ملتے، لیکن اگر آخری سماعت کے موقع پر عمران خان معافی نہ مانگتے اور یوسف رضا گیلانی کی طرح اپنا مقدمہ لڑتے تو پھر یقینی طور پر اس کے اثرات سامنے آنے تھے۔ باالفرض اگر وہ معافی نہ مانگتے تو پہلے مرحلے میں ان پر فرد جرم لگنا تھا، چیف جسٹس ان الزامات کو پڑھ کر سناتے، جن کو تسلیم کرنے سے وہ انکاری تھے اور خود کو بے قصور ثابت کرنے کی دلیل دے رہے تھے۔
عدالتیں اس قسم کے ہائی پروفائل مقدمات میں اٹارنی جنرل آفس کو استغاثہ کے فرائض ادا کرنے کا حکم دیتی ہیں، پھر اٹارنی جنرل گواہان کی فہرست عدالت میں پیش کرتے ہیں اور سب سے بڑی گواہی ملزم کی تقریر ہوتی ہے۔ شاید پیمرا کے ڈی جی یا کسی افسر سمیت دیگر سرکاری افسر گواہان کے طور پر پیش ہوتے اور ان پر جرح بھی ہوتی، جیسا کہ عدالت اس مقدمے کو فوجداری توہین عدالت قرار دے چکی تھی۔
ملزم اگر مقدمہ ہار جاتا تو عدالت ان کو توہین عدالت قانون 2012ء کے سیکشن 5 اور 6 کے تحت زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید اور ایک لاکھ رپے جرمانہ کی سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے، یا دونوں سزائیں بھی مل سکتی تھیں۔
اگر عمران خان کو ایک منٹ کی سزا بھی ملتی تو وہ چونکہ قومی اسمبلی کے منتخب نمائندے ہیں تو پہلے مرحلے میں ان کے خلاف اس سزا کی بنیاد پر ریفرنس الیکشن کمیشن میں جاسکتا تھا یا اسی فیصلے کی بنیاد پر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے انہیں نااہل بھی کروایا جاسکتا تھا اور یہ نااہلی 5 سال کی ہے۔
جب عمران خان کے سامنے یہ تمام تر تفصیلات رکھی گئی ہوں گی اور انہیں کہا گیا ہوگا کہ اگر عدالت نے 5 منٹ قید کی سزا بھی سنا دی تو ضمنی انتخابات تو اپنی جگہ آپ اگلے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل ہوجائیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کوئی نااہل شخص کسی جماعت کا سربراہ بھی نہیں رہ سکتا، یوں حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹی تمام تر چیزیں آپ سے اسی طرح دُور ہوسکتی ہیں جس طرح آپ نے میاں نواز شریف سے چھینی تھی۔
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔