بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں کیے گئے غیر قانونی اقدامات واپس لینے کا مطالبہ
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے جموں و کشمیر پر رابطہ گروپ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد کیے گئے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لیا جائے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، اجلاس میں بتایا گیا کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقوں کو غیر قانونی طور پر زبردستی ضم کیا اور اس طرح بھارتی آئین کی طرف سے دی گئی مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر سے متعلق او آئی سی کے مؤقف پر بھارت کا ’مضحکہ خیز تبصرہ‘ مسترد
او آئی سی گروپ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے اجلاس میں شرکت کی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی قبضے کی مذمت کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
اعلامیے میں بھارت پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ ’بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ازسر نو انتخابی حلقہ بندیوں، خطے کی جغرافیائی تبدیلی اور کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ غیرقانونی تعمیرات، زمین پر قبضے، گھروں کو مسمار کرنے سے روکا جائے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ بھارت، کشمیری عوام کی زندگیوں کو مشکل بنا رہا ہے۔
اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ ’اقوام متحدہ، بین الاقوامی میڈیا اور آزاد مبصرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کے لیے غیر محدود رسائی کی اجازت دی جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ٹھوس اور بامعنی اقدامات کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: او آئی سی کا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حلقہ بندیوں پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار
او آئی سی کے گروپ کی جانب سے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کشمیریوں کے ساتھ ناروا سلوک پر بھارت کو جواہدہ ٹھہرایا جائے۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ 22 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں او آئی سی کے رابطہ گروپ کی آخری میٹنگ کے دوران جموں و کشمیر کے حوالے سے طے پانے والے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کی جائے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ پیش کریں۔
او آئی سی گروپ نے سیکریٹری جنرل سے کہا کہ وہ مشترکہ اعلامیے کی ایک کاپی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کو بھی بھیجیں۔
انہوں نے نیو یارک اور جنیوا میں او آئی سی کے مبصر مشن سے درخواست کی کہ وہ اس اعلامیے کی ایک کاپی تمام رکن ممالک کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کو بھی ارسال کریں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر آزاد کشمیر کا او آئی سی سے بھارت پر معاشی پابندیاں لگانے کا مطالبہ
دوران اجلاس او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ پیش کی جبکہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری، رابطہ گروپ کے دیگر رکن ممالک اور کشمیری عوام کے نمائندوں نے شرکا کو حالیہ پیش رفت سے آگاہ بھی کیا۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کے حق خوداردیت کی توثیق کی گئی کہ مسئلہ کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کے آزادانہ اظہار رائے، غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔
گروپ نے تسلیم کیا کہ سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں 91 (1951)، 122 (1957) اور 123 (1957) میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ متعلقہ فریقین کی طرف سے پوری ریاست جموں و کشمیر یا اس کے کسی بھی حصے کی مستقبل کی شکل اور الحاق کا تعین کرنے کی کوشش، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے اصول کے مطابق ہوگی۔
او آئی سی گروپ نے 8 اگست 2018 کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے جاری کردہ بیان کو دہراتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کا مؤقف اقوام متحدہ کے منشور اور قراردادوں کے تحت ہے۔
مزید پڑھیں: او آئی سی کمیشن کی مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں کی مذمت
او آئی سی گروپ نے 16 اگست 2019، 15 جنوری 2020 اور 5 اگست 2020 کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے تین اجلاسوں کا خیر مقدم کیا اور او آئی سی گروپ کی جانب سے بھارت میں 5 اگست 2019 کو یکطرفہ بھارتی اقدامات کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔