پاکستان

خیبر جرگے نے وادی تیراہ میں امن کمیٹیاں مسترد کردیں، فوجی کارروائی کی مخالفت

جرگے کے شرکا نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

خیبر میں امن جرگہ کے شرکا نے امن و امان کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے امن کمیٹیوں یا کسی مسلح لشکر کی تشکیل کو مسترد کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 12 جماعتوں کے سیاسی اتحاد کے بینر تلے منعقد ہونے والے اس جرگے نے تیراہ میں کسی بھی فوجی آپریشن کی بھی مخالفت کی جہاں حال ہی میں کچھ عسکریت پسند گروپوں نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔

جرگے کے شرکا کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کی اکثریت اپنے گھر خالی کرنے کو تیار نہیں، جرگے میں مقامی عمائدین، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکنوں نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: سوات اور کوہاٹ میں دھماکے، امن کمیٹی کے رکن اور پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق

انہوں نے خطے میں عدم تحفظ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو باڑہ اور تیراہ بالخصوص پورے خیبر کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

جرگے کے شرکا نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ساتھ ہی صوبے کے مختلف حصوں میں مسلح گروہوں کی موجودگی کے بارے میں خیبرپختونخوا حکومت کی مجرمانہ خاموشی پر بھی سوال اٹھایا؟

انہوں نے عزم کیا کہ حکام کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے گا تاکہ انہیں موجودہ صورتحال کا پرامن حل تلاش کرنے اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا جا سکے۔

آئی ڈی پیز

وادی تیراہ کے کچھ علاقوں سے حال ہی میں بے گھر ہونے والے خاندانوں کی قسمت اب بھی ڈانواں ڈول ہے کیونکہ مقامی ذرائع کے مطابق شورش زدہ علاقوں میں ناپسندیدہ عناصر کی موجودگی کی وجہ سے حالات اب بھی مستحکم نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: سوات کی تحصیل مٹہ اور کبل میں سیکیورٹی چوکیاں قائم

انہوں نے کہا کہ تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ابھی تک علاقے میں کوئی آپریشن شروع نہیں کیا جیسا کہ بے گھر ہوئے خاندانوں کو بتایا گیا تھا۔

حال ہی میں باغرئی، جروبی، ڈرے نگری اور دوا کُھلے سے بے دخل کیے گئے خاندانوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں کیونکہ 3 ہفتے قبل شروع ہونے والی نقل مکانی کے دوران ان کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔

البتہ مقامی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ تقریباً 100 خاندانوں میں سے زیادہ تر سپاہ اور کمر خیل کے رہائشی تھے جبکہ اکاخیل اور زخا خیل قبائل سے تعلق رکھنے والے کچھ دیگر افراد نے درس جمات کے علاقے میں عارضی رہائش اختیار کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں کی ایک مختصر تعداد اورکزئی کے سرحدی علاقوں میں بھی پہنچی تھی۔درے نگری کے رہائشی ہنر باغ نے ڈان کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ تقریباً پانچ گھنٹے پیدل چل کر باڑہ پہنچے اور ایک ویران گودام میں پناہ لی۔انہوں نے کہا کہ باڑہ تک اپنے مشکل سفر کے تمام اخراجات بغیر کسی سرکاری مدد کے انہوں نے خود برداشت کیے۔

یہ بھی پڑھیں: سوات: ‘دہشت گردی کی بڑھتی لہر’ کے خلاف سیکڑوں افراد کا احتجاج

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ 'جب ہمیں صرف دو ماہ قبل ایک سرکاری یقین دہانی کے بعد واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی کہ یہ خطہ رہنے کے لیے محفوظ ہے تو ہمیں دوبارہ گھر خالی کرنے پر کیوں مجبور کیا گیا؟'

خیال رہے کہ سپاہ قبیلہ باڑہ کے ان سات قبائل میں وہ آخری قبیلہ تھا، جنہیں دہائیوں کی نقل مکانی کے بعد اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

ہنر باغ نے کہا کہ واپس آنے والے خاندانوں نے سخت سردی کے پیش نظر اپنے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو شروع ہی کی تھی کہ انہیں دوبارہ وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا کیونکہ ان کی واپسی شروع ہونے سے پہلے ہی کچھ مسلح عسکریت پسند ان کے علاقوں میں گھس آئے تھے۔

دوسری جانب اکاخیل کے علاقے دار جمعت میں فی الحال مقیم کمرخیل کے کچھ بے گھر خاندانوں کو جب نقل مکانی کے دوسرے مرحلے کے 3 ہفتے بعد ہی واپسی کا گرین سگنل دیا گیا تو انہوں نے واپس جانے سے انکار کردیا ۔

کمرخیل کے خاندانوں نے سیکیورٹی حکام کو بتایا کہ وہ اپنے گھروں کو صرف اسی صورت میں واپس جائیں گے جب انہیں ان کی حفاظت کی مکمل یقین دہانی کرائی جائے اور ساتھ ہی انہیں ایک مناسب ریلیف پیکج فراہم کرتے ہوئے اندرونِ ملک در بدر رجسٹرڈ افراد کے طور پر قبول کیا جائے، جس کا حکومت نے اعلان کیا تھا۔

غیر متعدی بیماریاں عالمی سطح پر 74 فیصد اموات کا سبب

اسحٰق ڈار نے درخواست واپس لے لی، اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ برقرار

جاپان : وزیر اعظم کے دفتر کے قریب شہری نے خود کو آگ لگا لی