ادبِ اطفال کے 75 سال: 21 ویں صدی میں بچوں کے اردو رسائل
اس سلسلے کی پہلی قسط یہاں پڑھیے
1990ء سے قبل بچوں کے ادب کی جو اڑان تھی وہ بتدریج کم ہونے لگی اور پھر سن 2000ء کے بعد دنیا جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی شاید ہی اس کا اندازہ کسی نے لگایا ہو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلابات کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی پوری دنیا متاثر ہوئی۔
ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے متاثر ہونے کی وجہ سے جہاں پاکستان سیاسی، معاشرتی اور معاشی طور پر تبدیل ہوا وہیں ان تمام محرکات کے اثرات ادب پر بھی پڑے۔ اس طرح لامحالہ ہم بچوں کے ادب میں بھی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔
بچوں کے ادب کے موضوعات میں تنوع کے باعث پہلے جو کہانیاں اور نظمیں کشمیر کے موضوع پر رسائل کا حصہ تھیں، اب ان میں افغانستان کو بھی موضوع بنایا جارہا تھا۔ جدید سائنس وترقی کے ذرائع نے بھی دنیا بھر میں موجود بچوں کے ادب تک رسائی میں اضافہ کردیا۔ امریکا سے شائع ہونے والے Highlights میگزین کے اثرات ہمیں مقامی پرچوں میں نظر آنے لگے۔ بچوں کے رسائل میں رنگین صفحات بڑھنے لگے اور کہانیوں کے موضوعات کے ان رجحانات نے تنوع اختیار کرلیا۔
بچوں کے ادب میں کتابوں نے جہاں بچوں کے مطالعے کی رغبت کو مثبت سرگرمیوں میں ڈھالا وہیں رسائل کی اشاعت بچوں کے مطالعے کو مہمیز دینے کا باعث بنیں۔ ان رسائل میں شائع ہونے والی کہانیاں، نظمیں، انعامی سلسلے اور سرگرمیوں نے نسلوں کو محظوظ کیا اور ان کی اخلاقی تربیت کی۔ ان رسائل میں تعلیم و تربیت، ماہنامہ نونہال اور ماہنامہ ساتھی کو ہم بچوں کے نمائندہ رسائل کے طور پر لے سکتے ہیں جنہوں نے اپنی مستقل اشاعت کے ذریعے بچوں کی تعلیم و تفریح کا خیال رکھا۔
اگر ہم ان 3 رسائل کے مندرجات دیکھیں تو تعلیم و تربیت سب سے قدیم رسالہ ہے جو مسلسل اپنی اشاعت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ تعلیم و تربیت کے موجودہ مدیر ظہیر سلام ہیں جو اس رسالے کے ناشر بھی ہیں۔ اسی طرح رسالے کے ادارتی معاملات کو اسسٹنٹ ایڈیٹر عابدہ اصغر دیکھتی ہیں۔
تعلیم و تربیت کے عملے میں اور کون لوگ شامل ہیں اس کے حوالے سے تفصیلات اب رسالے میں شائع نہیں کی جاتیں جبکہ کئی برس قبل تک تعلیم و تربیت میں کام کرنے والے تمام کارکنان کے نام باقاعدہ شائع کیے جاتے تھے۔ تعلیم و تربیت میں جہاں کئی نئے مصنفین کا اضافہ ہوا، وہیں بہت سارے لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنا قلمی تعاون تعلیم و تربیت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تعلیم وتربیت کے موجودہ ادیبوں اور شعرا میں کلیم چغتائی، نذیر انبالوی، جاوید بسام، ناصر محمود فرہاد، ڈاکٹر طارق ریاض، غلام حسین میمن، کاشف ضیائی، محمد فیصل علی، احمد عدنان طارق، علی اکمل تصور، عبدالرشید فاروقی، عبدالحمید عابد، محمد فاروق دانش، ریاض عادل، زبیدہ سلطانہ، نیر رانی شفق، وقاص اسلم، رانا محمد شاہد، محمد ندیم اختر، ریاض حسین قمر، محمد نسیم عالم، افضال عاجز، ضیاالحسن ضیا، راشد علی نواب شاہی، ڈاکٹر عمران مشتاق، فرزانہ چیمہ اور علی عمران ممتاز کے نام نمایاں ہیں۔
رسالے کے مستقل سلسلوں میں حمد، نعت، درس قرآن وحدیث، داؤدی علمی آزمائش (دماغ لڑاؤ)، بوجھو تو جانیں، کیا آپ جانتے ہیں، کھیل دس منٹ کا، آئیے مسکرائیں، بچوں کا انسائیکلوپیڈیا، پسند اپنی اپنی، میری زندگی کے مقاصد، کھوج لگائیے، آپ بھی لکھیے، ایڈیٹر کی ڈاک، بلاعنوان اور ہونہار مصور شامل ہیں۔
ان میں بیشتر سلسلے پرانے ہیں اور اسی نام سے چل رہے ہیں جس نام سے 2000ء سے قبل جاری تھے جبکہ ‘قلمی دوستی’ کو ‘میری زندگی کے مقاصد’ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب بچے کی تصویر اور اس کا مقصدِ زندگی تحریر ہوتا ہے۔ قلمی دوستی کی طرح اس میں پتا نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح بلاعنوان میں ہمیں کمپیوٹرائزڈ تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہاتھ سے بنائی گئی تصاویر کا استعمال کم کردیا گیا ہے۔ خطوط والے سلسلے ایڈیٹر کی ڈاک میں قارئین کو باقاعدہ جواب بھی دیا جانے لگا ہے۔
کہانیوں، مضامین کا معیار اس طرح کا نہیں ہے جیسا ہم 2000ء سے قبل یا اس کے چند برس بعد تک دیکھتے ہیں۔ بچوں کے بڑے ادیب تعلیم و تربیت میں کبھی کبھار تو نظر آتے ہیں لیکن مستقل نہیں لکھتے ہیں۔ طباعت کے لحاظ سے بھی تعلیم و تربیت 1990ء کی دہائی کا معیار برقرار نہیں رکھ پایا ہے۔ حالانکہ طباعت کے میدان میں جدید مشینوں کے آجانے سے بہت فرق پڑا ہے۔
تعلیم و تربیت کا سائز ساتھی اور ہمدرد نونہال کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ یہ بچوں کی عمر کے مطابق ہے اور بڑے سائز میں اچھی تزئین کاری بھی ممکن ہے لیکن ادارے کی مجموعی عدم دلچسپی کے باعث تعلیم و تربیت کے تمام شعبے متاثر نظر آتے ہیں۔ مدیران اورمعاونین کی ایک بڑی ٹیم کے ساتھ کام کرنے والا رسالہ اب مدیران اور معاونین کے حوالے سے بھی سکڑ گیا ہے۔
تعلیم و تربیت کو اگر دوبارہ بچوں کا محبوب رسالہ بننا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کو ملحوظِ خاطر رکھے۔
1953ء سے شائع ہونے والا ہمدرد نونہال اس وقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ جس طرح مئی 1988ء میں ہم تعلیم و تربیت کو ایک بالکل بدلے ہوئے رسالے کی طرح دیکھتے ہیں اسی طرح اگست 2020ء کو ہمدرد نونہال کا شمارہ اپنے پرانے سائز میں نئے انداز سے شائع ہوا۔ رسالے کی اشاعت ‘آرجی بلیو کمیونیکیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ’ کی زیرِ نگرانی کی جانے لگی۔
ابتدا میں ہمدرد نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی تھے جو ایک طویل عرصے تک نونہال کے مدیر رہے۔ 10 دسمبر 2017ء کو ان کے انتقال کے بعد کچھ عرصے کے لیے رسالہ سلیم فرخی نکالتے رہے۔ چند ماہ بعد سلیم مغل رسالے کے مدیر بنائے گئے لیکن وہ زیادہ عرصہ ہمدرد نونہال سے وابستہ نہیں رہے اور اگست 2020ء سے رسالہ ایک پرائیوٹ ادارے کے حوالے کردیا گیا اور عظمیٰ خطیب نواز رسالے کی مدیرہ بنا دی گئیں۔ رسالے میں اردو حصے کے نائب مدیر سلیم فرخی جبکہ انگریزی حصے کی نائب مدیرہ نورالعین کلوڈی کو بنایا گیا۔
اگست 2020ء سے رسالے میں یہ چند بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔
- رسالے کو بیک وقت 2 زبانوں اردو اور انگریزی میں شائع کیا جانے لگا۔
- رسالے کے صفحات 120 سے 160 کردیے گئے۔ (اردو صفحات 96۔ انگریزی صفحات 64)
- رسالے کو مکمل رنگین کردیا گیا۔
- رسالے کی قیمت 35 روپے سے بڑھا کر 100 روپے کردی گئی۔
- رسالے میں باقاعدہ اردو اور انگریزی حصے کے ادارتی و انتظامی امور کے نگران و معاونین کے نام دیے جانے لگے۔
- جولائی میں خاص نمبر شائع کیا گیا جس میں 208 صفحات اردو اور 160 صفحات انگریزی زبان کے شامل کیے گئے۔ یوں کُل 368 صفحات کا ضخیم ترین رسالہ شائع کیا گیا۔ اس خاص شمارے میں کورونا وبا کے پیش نظر بچوں کو ماسک کا تحفہ دیا گیا۔
- رسالے کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ان حصوں میں ملتی جلتی تحریروں اور سلسلوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ ان حصوں کے نام یہ رکھے گئے: روشنی، ہمارا سرورق، ناولٹ، ہماری دنیا سفرنامہ، نظم، قصہ کہانی، جذبہ باہم، صحت کی بات مزے کی بات، نونہال کاوش اور علم دوست نونہال۔ اسی طرح انگریزی حصوں کو بھی مختلف نام دیے گئے ہیں۔
ہمدرد نونہال میں ہونے والی یہ تبدیلیاں خوشگوار ہیں۔ ایک بڑے عرصے بعد بڑی خوبصورت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، خصوصاً تزئین کاری کا معاملہ بہت گھمبیر ہوچکا تھا۔ رسالے کی بہت خراب تزئین کاری کے باعث شکل و صورت بدل گئی تھی۔ اب ہمدرد نونہال میں بین الاقوامی معیار کی ڈیزائیننگ ہورہی ہے۔ خاکوں کے لیے ویکٹر فارمیٹ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ جولائی 2022ء سے ہمدرد نونہال کو دوبارہ ہمدرد کی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔
ہمدرد نونہال میں سرگرمیوں اور مضامین کی تعداد بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بچوں کے لیے رسالہ خریدنے والے والدین بچوں کے رسائل میں کہانیوں کے مطالعے سے زیادہ تعلیمی قسم کی سرگرمیوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس وجہ سے رسائل کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ سرگرمیوں کو بنیاد بناکر رسالہ مرتب کیا جائے۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہیں۔ اس حوالے سے بچوں کی معروف ادیبہ سیما صدیقی بچوں کے ایک رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ
‘ورک شیٹ اور ذہنی آزمائش کے سلسلے معیاری ہیں۔ آج کل کے بچوں کا وژن بہت وسیع ہے لہٰذا ان کو متوجہ کرنا اور متوجہ رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ ذہنی سرگرمیوں اور کہانیوں کا تناسب 60 اور 40 فیصد محسوس ہوا۔ کہانیاں 40 فیصد تھیں۔ ان کا تناسب بڑھانا چاہیے تاکہ بچوں کو یہ اسکول لائبریری کی کوئی ایکٹویٹی بک نہ لگے بلکہ تفریحی رسالہ لگے۔ ذہنی اور معلوماتی رجحانات کو فروغ دینا رسالے کی کامیابی ہے مگر ساتھ ہی بچوں کی تخیلاتی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ کہانیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مثلاً اگر کہانی نگار لکھے کہ جن کی آنکھیں انگارے جیسی، رنگت کوے جیسی اور جسامت ہاتھی جیسی تھی تو لفظوں سے بنی اس تصویر کو بچہ اپنے چشم تصور سے دیکھ سکے گا اور جتنا لکھا ہے اس سے آگے بھی سوچ سکے گا۔’
2000ء سے قبل کے جائزے میں ہمیں ہمدرد نونہال کے اندر طرح طرح کی مزے دار کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بڑے ادیب نونہال سے جڑے نظر آتے ہیں۔ نونہال نے اسی طویل عرصے میں بڑے ادیبوں کی تحریروں پر اکتفا کیا لیکن خود قلم کاروں کی کوئی ایسی ٹیم تشکیل نہ دے سکا جو نونہال کو اپنی دلچسپ تحریروں سے سجاتے اور نہ ہی یہ سلسلہ ہمیں تعلیم وتربیت میں نظر آتا ہے۔
اس سلسلے کا اعزاز یقیناً ماہنامہ ساتھی کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے قلم کاروں پر مشتمل ایک ایسی ٹیم بنائی ہے جو مستقل بنیادوں پر ساتھی میں لکھتے رہتے ہیں۔ دیگر رسائل کو بھی اس سلسلے میں کوشش کرنی ہوگی کہ وہ بچوں کے معروف ادیبوں سے لکھوانے کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والے قلم کاروں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرے۔ قلم کاروں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد دعوة اکیڈمی اسلام آباد کے شعبہ بچوں کا ادب کا خاصا ہوا کرتا تھا لیکن کئی برس سے اب ان تربیتی نشستوں کا سلسلہ بھی موقوف ہوچکا ہے۔
ہمدرد نونہال میں کہانیوں کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ خود ہمدرد نونہال کے پرانے شماروں کا مطالعہ کرکے موجودہ رسائل کو دیکھا جائے تو تحریروں میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس فرق کو ختم کرکے مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمدرد نونہال کے موجودہ لکھنے والوں میں سلیم فرخی، م۔ص ایمن، فہمینہ ارشد، حامد مشہود، نسرین شاہین، ثمینہ پروین، شمیم نوید، انجم حسن، جاوید بسام، نذیر انبالوی، احمد عدنان طارق، رانا قمر شاہد، عشرت جہاں، عروج سعد، حائمہ وزیر، حافظ محمد دانیال حسن، محمد اکرم وارثی کے نام نمایاں ہیں۔
ماہنامہ ساتھی نے نجیب احمد حنفی کے دورِ ادارت سے کافی تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں۔ جہاں کہانیوں اور مضامین میں منفرد خیال پیش کیے گئے، وہیں طباعت کے میدان میں بھی ماہنامہ ساتھی میں ہمیں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ خوبصورت اور دلکش اسکیچز اور رنگا رنگ سرورق نے جہاں ساتھی کو دیگر رسائل میں نمایاں کردیا تھا وہیں کہانیوں کے اچھے معیار نے ادب اطفال میں ماہنامہ ساتھی کی وقعت بڑھادی۔
اس عرصے میں ساتھی کے عموماً قلم کار صرف ماہنامہ ساتھی میں لکھتے رہے۔ ان نمایاں لکھاریوں میں حماد ظہیر، سیما صدیقی، نجیب احمد حنفی، جاوید بسام ، نائلہ صدیقی، بینا صدیقی، گل رعنا صدیقی، عظمیٰ ابو نصر صدیقی، محمد الیاس نواز، احمد حاطب صدیقی، راحمہ خان، فاطمہ نور صدیقی، فوزیہ خلیل، فصیح اللہ حسینی، ضیا اللہ محسن، نگہت حسین، حسام چندریگر، مریم سرفراز، اُمّ ایمان، الطاف حسین، جدون ادیب، عمران شمشاد، ابن آس محمد اور معروف احمد چشتی کے نام نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ شعرا میں تنویر پھول، ضیاالحسن ضیا، شریف شیوہ، احمد حاطب صدیقی، ضیااللہ محسن اور ارسلان اللہ خان نے اپنی مزے دار نظموں سے ماہنامہ ساتھی کو سجایا۔
ماہنامہ ساتھی نے اپنے موضوعاتی خاص شماروں کی روایت برقرار رکھی۔ جولائی 2021ء میں ماہنامہ ساتھی نے ملکی صورتحال کے پیش نظر گھبراہٹ نمبر کا اجرا کیا لیکن اس خاص شمارے میں بچوں کی مزے مزے کی گھبراہٹوں کا ذکر ہے۔
اس خاص شمارے میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پہلی گھبراہٹ کے نام سے نگہت حسین کی تحریر موجود ہے، جس میں پہلی وحی کے وقت کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح فوزیہ خلیل کی پارس گھبرا گیا، حماد ظہیر کی کہانی چچا گھبراؤ بھی اسی شمارے میں شامل ہے۔
گھبراہٹ نامہ کے نام سے ضیا اللہ محسن کی نظم جہاں بچوں کو محظوظ کررہی ہے وہیں الیاس نواز کا ڈراما خالہ کی گھبراہٹ بچوں کو کھلکھلانے پر مجبور کرتی ہے۔ بچوں میں گھبراہٹ کے حوالے سے طبّی نقطۂ نظر سے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ یہ خاص شمارہ 168 صفحات پر شائع کیا گیا ہے اور اس کی قیمت 80 روپے رکھی گئی ہے۔
جولائی ہی میں ہمدرد نونہال کا بھی خاص شمارہ شائع ہوا۔ یہ کسی خاص موضوع پر نہیں تھا۔ اسے سالنامہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ نونہال اور ساتھی کے خاص شمارے کا جائزہ لیں تو دونوں رسائل میں کچھ فرق نظر آتے ہیں۔
ماہانمہ ساتھی کا گھبراہٹ نمبر 168 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سے صرف 40 صفحات رنگین ہیں اور یہ مکمل اردو زبان میں ہے۔ دوسری جانب نونہال کا خاص شمارہ 368 صفحات پر مشتمل ہے جس کے تمام ہی صفحات رنگین ہیں اور یہ اردو اور انگریزی زبانوں میں ہے۔ اسی طرح ماہنامہ ساتھی کے گھبراہٹ نمبر کی قیمت 80 روپے جبکہ نونہال کے خاص شمارے کی قیمت 250 روپے ہے۔
اس موازنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں رسائل کے وسائل میں کتنا فرق ہے۔ ایک موضوع اور زبان کو چھوڑ کر باقی تمام چیزوں کا تعلق وسائل سے ہے۔ پاکستان میں بچوں کے ادب میں وسائل کی کمی کا مسئلہ ہر دور میں رہا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے بہت اچھے رسائل چند عرصے سے زیادہ نہیں چل سکے۔ طباعت و اشاعت کے لحاظ سے ہمدرد نونہال کی صورتحال اچھی ہے جبکہ ماہنامہ ساتھی اور تعلیم و تربیت کو اس شعبے پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
محمد طارق خان کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ ‘پاکستان میں بچوں کے اُدرو رسائل: 1971 تا 2000’ کے موضوع پر ایم فل کرچکے ہیں۔ آپ بچوں کے ایک سے زائد ماہنامہ رسائل کے نائب مدیر اور مدیر رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی ایک رسالے ‘بچوں کا آشیانہ’ سے بحیثیت مدیر وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔