آٹے کی پیمائش لیٹر میں، راہول گاندھی اور عمران خان میں کیا قدر مشترک ہے؟
عمران خان کی حالیہ دنوں میں زبان پھسلنے کی وجہ سے ٹوئٹر پر بھارتی صارفین کے لیے میمز بنانے کا ایک نیا موقع مل گیا اور انہوں نے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
انٹرنیٹ پر بھارتی صارفین اپنے سیاست دان راہول گاندھی کا موازنہ عمران خان کے ساتھ کر رہے ہیں کیونکہ دونوں سیاست دان مہنگائی پر بات کرنے کے ساتھ آٹے کی پیمائش لیٹر میں کرتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو براہ راست نشر ہونے والے خطاب میں قیمتوں میں ‘تاریخی’ اضافے پر بات کی، انہوں نے اسے ‘معاشی بحران’ قرار دیا، انہوں نے نشان دہی کی تھی کہ اگر اس موقع پر سیاسی آزادی نہ ملی تو انہیں خطرہ ہے کہ ملک کی حالت اتنی بگڑ جائے گی کہ اس پر مستقبل قریب میں قابو نہیں پایا جاسکے گا۔
اپنے دور کی قیمتوں کا موجودہ حکومت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ عام آدمی کو سخت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ آٹے کی قیمت دگنی ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں ایک کلو آٹے کی قیمت 50 روپے تھی، صرف 5 مہینے بعد آج کراچی میں اس کی قیمت 100 روپے فی لیٹر سے زیادہ ہوچکی ہے۔
ان کے زبان پھسلنے سے پاکستان میں کوئی خاص ارتعاش نہیں آیا تاہم سرحد پار لوگوں نے فوری طور پر ان کا موازنہ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے ساتھ کرنا شروع کردیا جنہوں نے ماضی میں ایسی ہی غلطی کی تھی۔
رواں مہینے کے اوائل میں دہلی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے آج کی قیمتوں کا موازنہ 2014 کے ساتھ کیا تھا۔
راہول گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ‘آٹا 22 بھارتی روپے فی لیٹر تھا جو اب 40 روپے لیٹر ہوچکا ہے، فوراً ہی غلطی کا احساس ہونے کے بعد انہوں نے کلوگرام کا لفظ استعمال کیا تھا، تاہم کیا یہ تصحیح انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو ٹرولنگ سے روک سکتی ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
ٹوئٹر کے بھارتی صارفین کو یقین ہے کہ دونوں سیاست دانوں نے ایک ہی کتاب پڑھی ہوگی۔
دونوں ‘عظیم’ ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ کیا عمران نے راہول کی نقل کی ؟
اور کیا یہ میٹرک کے نظام کو تبدیل کرنے کی سازش ہے؟
اس صارف نے عمران خان کی زبان پھسلنے کو قدرے سنجیدگی سے لیا۔
عمران خان کی زبان پھسلنا بہت سارے قہقہے لایا۔
صرف جڑواں چیزیں
کیا یہ مسابقتی چیزیں ہیں؟
رواں برس سیاست دان قہقہے لگانے کے متعدد موقع دیتے رہے، چاہے وہ بلاول بھٹو زرداری کا ‘کانپیں ٹانگ رہی ہیں’ ہو یا سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی ہیڈ فون کے ساتھ جدوجہد ہو، جب پاکستانی سیاست دانوں کی بات آتی ہے تو کوئی بھی لمحات مرجھائے ہوئے نہیں ہوتے۔