افغانستان: طالبان نے اہم ساتھی کی رہائی کے بدلے امریکی شہری کو چھوڑ دیا
افغانستان کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی جیل میں ہیروئین اسمگلنگ کے الزام میں 17 سال سے قید اپنے ساتھی کی رہائی کے بدلے 2020 سے افغانستان میں قید امریکی شہری کو چھوڑ دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق واشنگٹن نے پہلے بتایا تھا کہ مارک فریرچس سول انجینئر ہیں اور افغانستان میں مختلف تعمیراتی پروجیکٹس پر کام کر رہے تھے کہ ان کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ طویل مذاکرات کے بعد امریکی شہری مارک فریرچس کو کابل ایئر پورٹ پر امریکی وفد کے حوالے کیا گیا جبکہ انہوں نے (بشیر نورزئی) کو ہمارے حوالے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے پر ہم خوش ہیں، ہم نے اپنے ہم وطن کی واپسی کی شاندار تقریب دیکھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان شہری 15سال بعد بدنام زمانہ گوانتا ناموبے جیل سے رہا
امارات اسلامیہ افغانستان (آئی ای اے) کی حکومت نے نورزئی کا ہیرو کی طرح دھوم دھام سے استقبال کیا، تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ ان کا استقبال نقاب پوش طالبان سپاہیوں نے کیا جو پھولوں کے ہار لے کر آئے تھے۔
بشیر نورزئی نے پریس کانفرنس میں رپورٹرز کو بتایا کہ اگر افغانستان نے مضبوط ارادہ ظاہر نہیں کیا ہوتا تو آج میں یہاں پر نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری امریکی شہری کے بدلے رہائی سے افغانستان اور امریکا کے درمیان امن کو فروغ ملے گا۔
بشیر نورزئی دوسرے افغان شہری ہیں جنہیں حالیہ مہینوں میں امریکا نے رہا کیا ہے، جون میں اسداللہ ہارون کو بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتانامو بے سے 15 سال قید کے بعد چھوڑا گیا تھا۔
اسد اللہ ہارون پر القاعدہ سے رابطے کا الزام تھا لیکن وہ 2006 میں گرفتاری کے بعد سے کیوبا میں امریکی حراستی مرکز میں برسوں تک بغیر کسی الزام کے قید رہے جب وہ بطور شہد کے تاجر کام کر رہے تھے۔
انہیں طالبان کی کسی ڈیل کے تحت رہا نہیں کیا گیا تھا۔
افغان سیکیورٹی تجزیہ کار حکمت اللہ حکمت نے بتایا کہ بشیر نورزئی کی رہائی کابل میں نئے حکمران کی ‘بڑی کامیابی’ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بائیڈن نے امریکی شہریوں کے اغوا کے خاتمے کیلئے پابندیاں متعارف کرادیں
انہوں نے ‘اے ایف پی‘ کو بتایا کہ طالبان اپنے سپاہیوں اور عام شہریوں کو بتا سکے گا کہ وہ مخالف گروپس کے پاس موجود اپنے لوگوں کو واپس لانے کے قابل ہے۔
وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ بشیر نورزئی کی واپسی امریکا اور افغانستان کے درمیان ‘نئے دور’ کے آغاز کی نشاندہی ہے۔
مذاکرات ناقابل قبول
طالبان نے افغانستان میں تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ قبل اقتدار حاصل کیا تھا کیونکہ امریکا اور نیٹو اتحادی ممالک نے فوجی مداخلت کے 20 برس بعد ملک سے افواج کا انخلا کیا تھا۔
اس کے بعد سے افغانستان مزید معاشی اور انسانی بحران میں گھر گیا تھا، افغانستان کے دیگر ممالک میں اربوں ڈالر کے اثاثے واشنگٹن نے منجمد کردیے تھے جبکہ عالمی تنظمیوں نے امداد محدود کردی تھی۔
کسی بھی ملک نے اب تک نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ واشنگٹن کا طالبان سے مطالبہ ہے کہ انہیں قانونی حیثیت حاصل کرنی ہوگی۔
مزید پڑھیں: امریکا کا اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکل جانے کا مشورہ
کچھ عرصہ قبل امریکی محکمہ خارجہ نے مارک فریرچس کی رہائی کو حکومت کی ‘اہم اور غیر مذاکراتی ترجیح’ قرار دیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوری میں جاری بیان میں کہا تھا کہ طالبان کو مارک فریرچس کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ اپنی قانونی خواہشات پر غور کرنے کی توقع کرے۔
طالبان کے ساتھ منسلک بشیر نورزئی ایک عسکری کمانڈر ہے، انہیں ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، وہ 17 برس جیل میں قید کاٹ چکے ہیں۔
انہوں نے ایک بار افغانستان پر سوویت قبضے کے خلاف امریکا کے حمایت یافتہ مجاہدین فورسز کے ہمراہ جنگ لڑی تھی، ان کا شمار طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی میں ہوتا تھا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران امریکی استغاثہ نے کہا تھا کہ انہوں نے ‘دنیا بھر میں منشیات کا نیٹ ورک’ چلایا اور 1996 اور 2001 کے درمیان طالبان کی پہلی حکومت کی حمایت کی۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ بشیر نورزئی کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے تھے، انہوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کو ہتھیاروں سمیت مضبوط مدد فراہم کی تھی۔