پاکستان

پنجاب میں پہلی مرتبہ بلوچستان کی خاتون پولیس افسر ڈی پی او تعینات

ایس پی شازیہ سرور کو محکمے میں خواتین افسران کی نمائندگی میں اضافے کے عمل کے تحت ڈی پی او لیہ تعنیات کیا گیا ہے، پولیس حکام
|

پنجاب میں پہلی مرتبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خاتون پولیس افسر کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر(ڈی پی او) کے طور پر تعینات کردیا گیا جہاں پولیس میں خواتین کا مجموعی حصہ صرف 2.25 فیصد ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں پنجاب پولیس نے بتایا کہ 'نئی تعینات ہونے والی ڈسٹرکٹ پولیس افسر لیہ شازیہ سرور نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا، شازیہ سرور کا تعلق بلوچستان کے ضلع بولان سے ہے اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون افسر ہیں جنہیں پنجاب میں ڈی پی او تعینات کیا گیا ہے'۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت پنجاب نے پسماندہ صوبے سے وفاقی سطح پر سول سروس میں شمولیت کرنے والوں کے لیے مثبت پیغام دیتے ہوئے ایس پی شازیہ سرور کو خالی اسامی پر لیہ کی ڈی پی او کے طور پر تعینات کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملاکنڈ کی پہلی خاتون پولیس افسر شازیہ اسحٰق

ایک پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ایس پی شازیہ سرور پنجاب میں ڈی پی او کے طور پر خدمات انجام دینے والی پانچویں خاتون پولیس افسر ہیں جبکہ بلوچستان کا ڈومیسائل رکھنے والی پہلی خاتون افسر ہیں۔

عہدیدارکا کہنا تھا کہ اس سے قبل پچھلے 4 برسوں میں ایس پی شائستہ رحمٰن ڈی پی او بھکر، ایس پی عمارہ اطہر ڈی پی او بہاولنگر اور ڈی پی او سرگودھا، ایس پی ماریہ محمود ڈی پی ڈی پی او پاکپتن اور ایس پی ندا عمر ڈی پی او لیہ کے طور فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔

اسی طرح فیصل آباد سٹی پولیس افسر (سی پی او) عمر سعید ملک نے فرح بتول کو اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کے طور پر تعینات کیا تھا، فرح بتول ضلع کی تاریخ میں ایس ایچ او کے طورپر خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون پولیس افسر ہیں۔

عمرسعید ملک نے ڈان کو بتایا کہ گنجان آباد شہروں میں ایک میں تھانوں میں شکایات لے کر آنے والی خواتین کی تعداد میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے جہاں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں شہر میں خواتین ایس ایچ اوز کی تعداد میں اضافے کی تجویز بھی ہے۔

ایک اہم تبدیلی

سرکاری ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس کی پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ہے کیونکہ موجودہ آئی جی پی فیصل شاہکار نے مرد افسران کا غلبہ کم کرنے کے لیے تمام رینکس میں خواتین پولیس افسران کی نمائندگی میں اضافے کے لیے سلسلہ وار اجلاس کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب پولیس کی بہادر خواتین افسران سے ملیے

ابتدائی طور پر انہیں اس فیصلے پر مردوں کے زیر اثر محکموں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جہاں چند سینئر پولیس افسران نے پالیسی کی کھل کر مخالفت کی، ان پولیس افسران کی رائے تھی کہ فیلڈ پوسٹنگ میں خواتین کی حمایت نہ کی جائے۔

ان کا خیال تھا کہ خواتین کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے وجہ سے وہ پولیس فورس کی کمان سنبھال نہیں سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کے سربراہ کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ خواتین پولیس افسران کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں تو وہ انہیں فیلڈ کے بجائے انتظامی امور میں تعینات کر سکتے ہیں۔

تاہم آئی جی پی فیصل شاہکار نے اس طرح کے مشورے مسترد کرتے ہوئے فیلڈ پولیس افسران کو ہدایت جاری کی کہ متعلقہ ضلع اور ریجن میں خواتین پولیس افسران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

حکام کا کہنا تھا کہ پولیس چیف نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں قائم خواتین پولیس کونسل کا کردار بھی بہتر بنایا، اس کے علاوہ پنجاب پولیس ایگزیکٹو بورڈ میں 2 سینئر خواتین افسران کو بھی شامل کیا گیا، اس عمل سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین اور مردوں میں یکساں معیار کی پالیسی کے فیصلے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نوجوان خاتون پولیس افسر بہادری کی مثال

حال ہی میں آئی جی پی نے ڈپٹی پولیس افسر کے 3 عہدوں کے لیے 3 خواتین پولیس افسروں کے نام وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو تجویز کیے تھے، ان خواتین پولیس افسروں میں شازیہ سرور، عمارہ اطہر اور شازیہ ندیم شامل ہیں۔

بعد ازاں ان افسران کو انٹرویو کے لیے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں بلایا گیا جہاں آئی جی پی فیصل شاہکار بھی موجود تھے، وزیر اعلیٰ نے ایس پی شازیہ سرور کو لیہ کی ڈی پی او تعینات کرنے کی منظوری دی۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ ضلعی پولیس کی سربراہی کے لیے مزید خواتین پولیس افسران کی تقرری کا عمل جاری ہے۔

خواتین پولیس افسران کی کُل تعداد 2.25 فیصد

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 2 لاکھ اہلکاروں کی مجموعی تعداد میں سے صرف 4 ہزار 500 خواتین پولیس اہلکار پنجاب کے محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے رہی ہیں جبکہ ان میں سے صرف چند ڈی آئی جی یا اس سے اوپر کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکی ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پولیس افسران کو اکثر مردوں کے غلبے والے محکمے میں خود کو ایڈجسٹ کرنا مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، موجودہ کلچر کی وجہ سے کوئی بھی علاقائی پولیس افسر کا عہدہ حاصل نہیں کرسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب پولیس میں تقرر و تبادلے پر وزیراعلیٰ اور آئی جی میں اختلافات ختم

ذرائع کا کہنا تھا کہ بعض خواتین افسران کو اعلیٰ عہدے پر فائز مرد افسران کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے اعلیٰ پولیس افسران صوبائی پولیس سربراہان کو ان کی غلط تصویر پیش کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحقیقات

عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور میں بھی پہلی مرتبہ تفتیشی افسران کے طور پر کام کرنے والی 6 خواتین پولیس عہدیداروں کو ان کے خلاف مرد ساتھیوں کی جانب سے کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ حکام کویہ وجہ بتاتے ہوئے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مرد تفتیشی افسران خواتین کے مقابلے میں مجرموں کی شناخت اور پکڑ دھکڑ کے خطرناک کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

لاہور: مریم اورنگزیب، جاوید لطیف کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج

روپے کی قدر میں مزید ایک روپے 7 پیسے کی کمی، ڈالر 238 روپے کا ہوگیا

‘کیا ڈیل ہو رہی ہے؟’