روپے کی قدر میں مزید ایک روپے 7 پیسے کی کمی، ڈالر 238 روپے کا ہوگیا
دو ستمبر سے مسلسل گراوٹ کا شکار ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ برقرار ہے اور پیر کو انٹربینک مارکیٹ میں تجارت کے دوران روپے کی قدر میں مزید ایک روپے 7 پیسے کی کمی واقع ہوئی۔
پیر کو کاروباری ہفتے کے پہلے دن روپیہ گر کر 238س روپے فی ڈالر پر آگیا جو جمعے کو 236.84 روپے پر بند ہونے کے بعد روپے کی قدر میں مزید 0.45 فیصد کمی کی عکاسی کرتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 0.45 فیصد کمی ہوئی۔
چئیرمین فوریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا کہ انٹر بینک مارکیٹ میں تیل کی درآمد کی ادائیگی کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے روپیہ کمزور ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجناس کی درآمدی ایل سی ایز بھی زیادہ کھل رہی ہیں جو ڈالر کی طلب کو بڑھا رہی ہیں اور دوست ممالک سے 4 ارب ڈالر جلد مل گئے تو روپے پر دباؤ کم ہوسکتا ہے۔
بلک بوستان نے کہا کہ سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹس کی میعاد ایک سال کے لیے بڑھادی ہے اور آئی ایم ایف نے بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی 2 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے اور یہ عزم بروقت ہوا تو روپیہ مستحکم ہوسکتا ہے، مگر خام تیل عالمی مارکیٹ میں بڑھا تو اس کے اثرات معیشت پر دباؤ بڑھائیں گے۔
ملک بوستان نے حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت درآمدات پر نظر رکھے اور غیر ضروری اشیا کی درآمدات بند کرے تاکہ ملکی زرمبادلہ کی بچت ہوسکے۔
مزید پڑھیں: ایران، افغانستان سے خوراک کی درآمد کے لیے ڈالر کی قلت کا سامنا
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اوپن مارکیٹ میں روپیہ 242.4 فی ڈالر میں ٹریڈ ہو رہا ہے۔
مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ یہ کمی مارکیٹ میں طلب اور رسد کی مجموعی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، روپے نے سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ کی جانب سے ایک سال کے لیے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی خبروں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ اس پیشرفت سے مارکیٹ میں ڈالر کی لیکویڈیٹی بہتر نہیں ہوئی۔
سعد بن نصیر نے کہا کہ روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکنے کے لیے حکومت کو قدم بڑھانا ہوگا اور سفارش کی کہ حکومت برآمد کنندگان کو اپنی آمدنی ملک میں لانے کے لیے دی گئی 120 دن کی مدت میں کمی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے برآمد کنندگان اپنی ادائیگیاں بیرون ملک روکے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں توقع ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر بڑھے گی جس کے بعد ہی وہ رقم ملک میں واپس لائیں گے، اس کی وجہ سے اکثر ملک میں ڈالر کی قلت بڑھ جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بینکوں نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ڈالر بیرون ملک بھیجنا شروع کردیے
انہوں نے حکومت پر یہ بھی زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ برآمد کنندگان کے لیے شرح تبادلہ اس دن فکس کیا جائے جس دن وہ اشیا باہر فروخت کے لیے بھیجیں، اس اقدام سے شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ متوقع ہے۔
میٹس گلوبل کے مطابق گزشتہ ہفتے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 8.7 روپے کی کمی واقع ہوئی، گزشتہ 52 ہفتوں کے دوران مقامی کرنسی کی قدر میں 28.99 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور 28 جولائی کو ڈالر 239.94 کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔