پاک-انگلینڈ کرکٹ تنازعات: جب انگلش کھلاڑیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا حکم ہوا
کچھ عرصے قبل پاکستان کے دورے پر آنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم نے بغیر کوئی میچ کھیلے ہی اپنا دورہ منسوخ کردیا تھا اور ایک سازش کا شکار ہوکر واپس چلی گئی تھی۔ اسی کی دیکھا دیکھی انگلینڈ کی ٹیم نے بھی سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرکے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کردیا تھا۔
جب ان دونوں واقعات کی حقیقت عیاں ہوئی تو معافی تلافی اور خفت مٹانے کا سلسلہ شروع ہوا اور نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز نے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی۔ اس کے نتیجے میں اب انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ہے۔ اس دورے میں 7 ٹی20 میچ کھیلے جائیں گے جن میں سے 4 میچوں کا انعقاد کراچی اور 3 کا لاہور میں ہوگا۔
پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالی جائے تو ایک عجیب و غریب تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ تاریخ بہت دلچسپ ہے اور اس میں بہت سے حادثے اور تنازع شامل ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم کا یہ دورہ 17 سال کے طویل انتظار کے بعد کیوں ہورہا ہے؟
اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے دہشتگردانہ حملے کے بعد پاکستان نے اپنا ہوم گراؤنڈ متحدہ عرب امارات کو بنالیا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ دوسری جانب غیر ملکی ٹیمیں بھی سیکیورٹی صورتحال کو بہانا بناتی رہیں۔
انگلینڈ کی ٹیم آخری بار 2005ء میں مائیکل وان کی سربراہی میں دورہ پاکستان پر آئی تھی۔ اس کے بعد اس نے متحدہ عرب امارات کے ہی دورے کیے۔ تاہم ان دونوں ٹیموں کے درمیان کچھ دیگر معاملات بھی تناؤ کا باعث رہے ہیں۔
امپائرنگ کے فیصلوں پر جھگڑا، میچ فکسنگ و بال ٹیمپرنگ کے الزامات، پاکستان کے اپمائر ادریس بیگ کو انگلش کھلاڑیوں کی جانب سے زدوکوب کیے جانا اور انگلش کپتان مائیک گیٹنگ کا فیصل آباد ٹیسٹ میں امپائر شکور شاد سے لڑائی جیسے کئی معاملات ماضی میں دونوں ٹیموں کے درمیان تنازعات کا سبب بنے۔ ان تمام حقائق و تنازعات پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے۔
کوئی آفیشل ٹیسٹ میچ ہو یا ان آفیشل ٹیسٹ میچ، بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سیریز بغیر کسی تنازع کے کھیلی گئی ہو۔
ماضی میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ایم سی سی کے ہی نام سے پاکستان، بھارت اور آسٹریلیا کا دورہ کیا کرتی تھی۔ 1956ء میں جب انگلینڈ سے ایم سی سی ‘اے’ ٹیم کپتان ڈونلڈ کار کی قیادت میں ان آفیشل ٹیسٹ کھیلنے آئی تو ایک موقع پر صورتحال اس قدر تشویشناک ہوگئی کہ پاکستان کے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے اس ٹیم کو پاکستان سے ڈی پورٹ کردینے کا حکم دے دیا۔
ہوا یہ کہ پشاور ٹیسٹ میں امپائر ادریس بیگ کے فیصلوں پر انگلش کھلاڑیوں نے تنقید کی اور بعد ازاں پشاور کے ڈینز ہوٹل میں ادریس بیگ پر پانی کی بالٹیاں بھی انڈیل دیں اور گالم گلوچ بھی کی۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جب ہوٹل سیکیورٹی نے پاکستانی ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار کو اطلاع دی تو وہ کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری چیما صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچے اور انگلش کھلاڑیوں کی اس حرکت پر احتجاج کیا۔ اس پر ان کھلاڑیوں نے ان سے بھی بدتمیزی کی۔ معاملہ بہت سنجیدہ ہوگیا اور جب اس کی خبر صدر اسکندر مرزا جو کرکٹ بورڈ کے پیٹرن بھی تھے تک پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستان سے نکال دیا جائے۔
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی جس کے نتیجے میں ایم سی سی کے صدر لارڈ الیگزینڈر آف تیونس نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فوراً ہی پاکستان کے صدر اور کرکٹ بورڈ کے لیے معافی نامہ پیش کیا۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ جب ٹیم اپنے ملک واپس آئے گی تو اس واقعے کی مکمل انکوائری کی جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر صدر پاکستان کہتے ہیں تو وہ ٹیم کو خود ہی واپس بلانے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی درخواست یہی تھی کہ ٹیم کو معاف کردیا جائے۔ اس معافی نامے کے نتیجے میں انگلش ٹیم کا دورہ پاکستان جاری رہا تاہم دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔
جن کھلاڑیوں نے پاکستانی امپائر کو زدوکوب کیا تھا، انگلینڈ واپسی پر ان کی سرزنش کی گئی اور کپتان ڈونلڈ کار کو ہمیشہ کے لیے کپتانی سے علیحدہ کردیا گیا۔ امپائر ادریس بیگ پر حملہ کرنے والے کھلاڑیوں میں فریڈ ٹٹمس، رائے سویٹ مین، ڈونلڈ کار اور کچھ دیگر کھلاڑی بھی موجود تھے، اور یہ کھلاڑی زیادہ عرصہ انگلینڈ کے لیے کرکٹ نہیں کھیل سکے۔
ڈونلڈ کار نے آکسفورڈ سے بھی کھیلا اور انگلینڈ کے لیے بھی 2 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ بعد ازاں انہوں نے ایم سی سی کی ملازمت اختیار کرلی۔ دونلڈ کار کے بیٹے جان کار نے بھی اپنے والد کی طرح ڈربی شائر کاؤنٹی سے کھیلا اور اب وہ بھی ایم سی سی کے ملازم ہیں۔ وہ انگلش کرکٹ بورڈ کا بھی حصہ ہیں۔ پاکستان میں ٹیم کی انسپیکشن ہوتی ہے یا پی سی بی سے کوئی مشاورت ہوتی ہے تو اس کے لیے جان کار ہی پاکستان آتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد کرکٹ کا ایک ریڈی میڈ کلچر موجود تھا۔ اسی کلچر کا شکار ادریس بیگ بھی تھے۔ ادریس بیگ بہت ہی زبردست کردار کے مالک تھے۔ وہ پاکستان کے ابتدائی دور میں بھی مختلف ممالک اور کامن ویلتھ کی ٹیموں کے ساتھ ہونے والے میچوں اور فرسٹ کلاس میچوں میں امپائرنگ کرچکے تھے۔
تقسیمِ ہند سے قبل ادریس بیگ خود بھی دہلی کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے تھے۔ ان کے اس تجربے کو دیکھتے ہوئے عبد الحفیظ کاردار نے انہیں امپائرنگ کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ادریس بیگ کوئی ایسے امپائر نہیں تھے جنہوں نے کرکٹ نہ کھیلی ہو۔ نیشنل اسٹیڈیم تعمیر کروانے والے انجینئر کفیل الدین پی ڈبلیو ڈی میں چیف انجینئر تھے، انہوں نے ادریس بیگ کو پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت بھی دے دی تھی۔
ادریس بیگ کو ‘بھائی’ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان کا مشغلہ یہ تھا کہ ان کے پاس ہر وقت پان کا بٹوا رہتا تھا جس میں وہ پان، چھالیہ، چونا اور کتھا لیے پھرتے تھے، یہاں تک کہ وہ میچ کے دوران بھی پان کھاتے رہتے تھے۔
ادریس بیگ چونکہ تقسیمِ ہند سے قبل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ہوئے تھے اس وجہ سے ان کے کئی کھلاڑیوں سے تعلقات بھی تھے۔ ان میں ماجد خان کے والد ڈاکٹر جہانگیر خان، دلاور خان، نذیر علی اور وزیر علی جیسے کھلاڑی بھی شامل تھے۔ ادریس بھائی اس وقت سے ہی امپائرنگ کررہے تھے جب پاکستان آئی سی سی کا رکن نہیں بنا تھا اور یہاں صرف ان آفیشل ٹیسٹ کھیلے جاتے تھے۔
ادریس بھائی کے لباس کا انتخاب بھی بہت عمدہ ہوتا تھا۔ وہ سوٹ پہنتے تھے اور انگریز جو خاکی ہیٹ پہنتے تھے وہ ہیٹ پہن کر امپائرنگ کیا کرتے تھے۔ وہ قدآور شخص تھے، بڑے بال اور گھنی مونچھیں رکھتے تھے اور مجموعی طور پر بڑی پُرکشش شخصیت کے حامل تھے۔ وہ بہت پڑھے لکھے تھے اور روانی کے ساتھ انگریزی بولتے تھے، اس وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ لوگوں کو مرعوب بھی کردیا کرتے تھے۔
جب میں قائدِاعظم ٹرافی کھیلنے لگا تو مجھے بھی ان کی قربت کا شرف حاصل رہا کیونکہ وہ ایوب ٹرافی اور قائدِاعظم ٹرافی کے میچوں میں امپائرنگ کرتے تھے۔ وہ عموماً ایک اور پاکستانی امپائر داؤد خان کے ساتھ امپائرنگ کرتے تھے۔
یہ تھی پاکستان اور انگلینڈ کے کرکٹ تعلقات میں تنازعات کے آغاز کی کہانی۔ اس کے بعد پاکستان ہو یا انگلینڈ ہر سیریز میں کوئی نہ کوئی اسکینڈل مسلسل صحافیوں اور کرکٹ شائقین کے سامنے آتا رہا۔
کرکٹ کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا جب کسی مہمان ٹیم کو میزبان ملک کی حکومت نے ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا ہو۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ان تنازعات میں امپائر شکور رانا اور انگلش کپتان مائیک گیٹنگ کی ٹیسٹ میچ کے دوران لڑائی، عمران خان کی قیادت میں 1987ء میں ہونے والے دورے کے دوران امپائرنگ پر ہونے والی تنقید، اس کے بعد کے دوروں میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی باؤلنگ سے انگلش بیٹنگ لائن کی تباہی، 1987ء میں اسپنر عبدالقادر کی باؤلنگ پر انگلینڈ کا شکوہ اور شکست، 2006ء میں انضمام الحق کی کپتانی میں کھیلے جانے والے اوول ٹیسٹ کے دوران میدان میں اچانک میچ کا ختم ہوجانا اور پھر 2010ء کے دورے کے دوران میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں کھلاڑیوں کی گرفتاری اور قید جیسے واقعات شامل ہیں۔
آپ یہ تمام کہانیاں انگلینڈ کے اس دورے کے دوران پڑھتے رہیں گے۔ اس وقت تو دعا کیجیے کہ موجودہ 7 ٹی 20 میچ بخیر و عافیت کھیلے جائیں اور کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہوا کہ انگلینڈ کی ٹیم ایک بار پھر 17 سال کے لیے ہم سے روٹھ جائے۔
قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ‘فار مور دین اے گیم’ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔
قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ’فار مور دین اے گیم‘ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔