سوات: ‘دہشت گردی کی بڑھتی لہر’ کے خلاف سیکڑوں افراد کا احتجاج
خیبرپختونخوا کی وادی سوات میں سیکڑوں لوگ حالیہ عسکریت پسندی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس سے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دہشت گردی کی لہر جاری رہنے کی صورت میں مزید مظاہرے کریں گے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں سوات کی تحصیل کبل میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان، 2 پولیس گارڈز رامیل اور توحید اور ایک بچہ کوٹاکے سے بنڈائی گاؤں جا رہے تھے کہ کچی سڑک پر نصب بم پھٹنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، دھماکے میں 2 راہگیر بھی جاں بحق ہوئے تھے، بعدازاں دو مزید لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوات اور کوہاٹ میں دھماکے، امن کمیٹی کے رکن اور پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ادریس خان تقریباً 13 برس سے ان کی ہٹ لسٹ پر تھے۔
سوات کے شہری کچھ عرصے سے دہشت گردی کی بڑھتی لہر کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔
مظاہرین آج بعد نماز جمعہ کبل چوک پر جمع ہوئے اور علاقے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے خلاف تشویش کا اظہار کیا، مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر نعرے لکھے تھے کہ ‘ہم امن چاہتے ہیں، ہماری زندگیاں بچائیں’، اسی طرح ایک نعرہ تھا کہ ‘ہم بندوق نہیں تعلیم چاہتے ہیں’.
بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، وکلا اور مقامی سیاسی رہنما بھی احتجاج میں شریک ہوئے۔
ڈان ڈاٹ کام کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سوات کے رہنما رحمت علی خان نے بتایا کہ شہری دہشت گردی کی حالیہ لہر کے گواہ ہیں، سوات میں کافی عرصے سے ایسا کچھ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وادی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول پولیس، لیویز، فرنٹیر کور (ایف سی) اور فوج موجود ہے لیکن دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے
احتجاج میں شریک سردار علی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ عجیب صورت حال ہے کہ سیکڑوں لوگ دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں جبکہ دیگر ممالک سائنس، روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور ای۔کامرس کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مایوس کن صورت حال ہے کہ شہری اپنے بنیادی حقوق کے لیے سڑکوں پر جمع ہیں۔
دیگر مظاہرین نے کہا کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ دہشت گرد کھلے عام امن و امان خراب کر رہے ہیں جبکہ حکام نے مبینہ طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
سماجی کارکن فواد احمد نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ بہت ہو گیا، ہم ایسی سرگرمیوں کو مزید برداشت نہیں کریں گے، اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس دہشت گردوں اور ریاست دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے تو سوات کے عوام خود ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے۔
متعدد افراد اپنے ساتھ بچوں کو بھی مظاہرے میں لے کر آئے تھے اور کہا کہ انہوں نے 2007 سے 2009 تک سوات میں عسکریت پسندی کا خوف ناک دور دیکھا ہے، وہ 15 سال بعد بھی اُس دہشت گردی کے اثرات سے صحیح طور پر نہیں نکل سکے ہیں۔
مظاہرین نے عزم ظاہر کیا کہ وہ وادی میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سوات: دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 8 ہوگئی
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ اتوار کو مینگورہ کے نشاط چوک پر ایک اور احتجاج کریں گے۔
یاد رہے کہ سوات 2007 میں اُس وقت عسکریت پسندوں کی زد میں آیا تھا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ملا فضل اللہ کی قیادت میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا۔
2009 میں فیصلہ کن فوجی آپریشن کے نتیجے میں علاقے سے عسکریت پسندی ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی، تاہم اب ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ عسکریت پسند 12 سال بعد دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور وہ لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر حکام کے سامنے ان کے خلاف مذمت کریں گے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
شانگلہ میں احتجاج
شانگلہ کی تحصیل پورن تحصیل کے شہریوں نے بھی سوات میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کے خلاف احتجاج کیا اور ریلی نکالی۔
مقامی افراد بشمول مذہبی رہنماؤں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں امن برقرار رکھیں۔
مذہبی رہنما مولانا وقاص نے کہا کہ انسانی جانیں قیمتی ہیں اور انہیں صرف امن کی بحالی اور دہشت گردی کی مخالفت کرنے کے لیے باغیوں کے ہاتھوں قتل نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں عوام کو 'دھوکا' دیا گیا اور خطے میں دہشت گردی 'لائی' گئی لیکن اس بار عوام متحد ہیں، انہوں نے امن کے لیے دعا کی اور زور دیا کہ لوگ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
الوچ بازار پورن میں ریلی کے شرکا نے خطے میں امن برقرار رکھنے کےلیے نعرے لگائے۔