کراچی سے کئی برس قبل 'لاپتا' ہوئے مزید 3 افراد کی لاشیں سندھ کے مختلف شہروں سے برآمد
سانگھڑ میں متحدہ قومی موومنٹ کے لاپتا کارکن کی لاش ملنے کے ایک روز بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے برسوں قبل لاپتا مزید 3 شہریوں کی صوبے کے مختلف شہروں سے لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ 3 متوفیوں میں سے 2 کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا جب کہ تیسرے شخص کا تعلق مبینہ طور پر لیاری گینگ وار اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ سے تھا۔
وفاقی حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان، الطاف حسین کی زیر قیادت ایم کیو ایم لندن، مصطفیٰ کمال کی سربراہی میں پاک سرزمین پارٹی نے کراچی سے تعلق رکھنے والے 4 'لاپتا' افراد کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: 6 سال سے لاپتا ایم کیو ایم کارکن کی لاش سانگھڑ سے برآمد
2016 سے لاپتا ایم کیو ایم کے کارکن عابد عباسی کی لاش نواب شاہ میں سڑک کے کنارے سے ملی۔
بعد ازاں اپریل 2017 سے لاپتا ایک اور کارکن وسیم اختر عرف راجو کی لاش میرپورخاص شوگر مل کے قریب سڑک کے کنارے سے ملی، متوفی کا تعلق ایم کیو ایم کے شاہ فیصل کالونی یونٹ سے تھا۔
اس طرح لاشی ملنے کے تیسرے واقعے میں عمرکوٹ بائی پاس کے قریب جمع ہونے والے بارش کے پانی سے ایک شخص کی تشدد زدہ لاش نکالی گئی۔
تعلقہ پولیس کو متوفی کی جیب سے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ملا جس کے ذریعے اس کی شناخت سہیل حسن مکرانی عرف سنی کے نام سے ہوئی۔
مزید پڑھیں: کراچی: ایم کیو ایم کارکنان کی لاشیں برآمد
بعد ازاں لیاری میں متوفی کے ورثا سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے عمرکوٹ پہنچ کر مقتول کی شناخت کی۔
متوفی سہیل حسن کے بھائی فاروق حسن نے ڈان کو بتایا کہ ان کا بھائی 4 سال قبل لاپتا ہوا تھا اور اس کے لاپتا ہونے کے حوالے سے بغدادی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا دوسرا بھائی بھی لاپتا ہے، انہوں نے سندھ حکومت سے اپیل کی کہ ان کے بھائی کو قتل کیے جانے سے قبل بازیاب کرایا جائے۔
اس سے ایک روز قبل منگل کے روزضلع سانگھڑ سے لاپتا ایم کیو ایم پاکستان کے کارکن عرفان بصارت کی لاش ملی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، متحدہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط
متوفی ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے صلاح الدین کے بہنوئی تھے جو 2018 میں حیدرآباد سے منتخب ہوئے تھے۔
ایم این اے صلاح الدین نے عرفان بصارت کی گمشدگی کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا تھا۔
ایم این اے صلاح الدین نے لوگوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ سابق اور موجودہ وزرائے اعظم کے سامنے اٹھایا تھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔
ایس ایس پی سٹی کراچی شبیر احمد نے ڈان کو بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے 'لاپتا' کارکن عابد عباسی کے خلاف نیپئر پولیس اسٹیشن میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'مہاجر ریپبلکن آرمی کے تانے بانے ایم کیو ایم سے نہیں ملتے'
ان کا مزید کہنا تھا کہ سہیل حسن کے خلاف 10 مقدمات درج ہیں اور اسے اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
لیاری کے ایک سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سہیل حسن لیاری میں عزیر بلوچ کے گینگ کا ’اہم کمانڈر‘ تھا۔
انہوں نے کہا کہ لیاری میں عابد عباسی بھی ایک جانا پہچانا کردار تھا جو مبینہ طور پر عزیر بلوچ کے مخالف گینگ کا سپورٹر تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا تحقیقات کا وعدہ
اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر اقتصادی امور ایاز صادق نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور امین الحق سے ملاقات کی اور ایم کیو ایم کے 3 کارکنوں کی لاشیں برآمد ہونے پر اظہار تعزیت کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کے پاس زیادہ وقت نہیں،حکومتی حلیف کے بجائے پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا، شہباز شریف
وزیر داخلہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کو یقین دلایا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کے تعاون سے قتل میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے آزادانہ تحقیقات کرائے گی۔
ایم کیو ایم کا شفاف تحقیقات کا مطالبہ
ایم کیو ایم پاکستان لاپتا کارکنوں کی لاشیں ملنے کے واقعات پر شدید ردعمل دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ لاپتا کارکنوں کے حالیہ ماورائے عدالت قتل کی شفاف انکوائری کرائی جائے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے بات کی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ کو بھی پیغام پہنچایا ہے۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ ہم ان واقعات کی آزادانہ انکوائری چاہتے ہیں، ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہمارے کارکن بے قصور تھے، اگر اس شہر کے نوجوانوں کی پرامن جمہوری جدوجہد کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کی گئی تو وہ دوسرے آپشنز تلاش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کارکن کی موت پولیس تشدد سے نہیں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، سعید غنی
انہوں نے وزیراعظم، چیف جسٹس پاکستان اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ وہ ’اس سنگین ناانصافی‘ کا نوٹس لیں۔
دوسری جانب، پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بھی گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سندھ کے مختلف اضلاع سے کراچی سے لاپتا ہونے والے افراد کی لاشوں کی برآمدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان نوجوانوں نے کوئی جرم کیا تھا تو انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہ افراد کسی جرم میں ملوث تھے یا نہیں۔