پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات میں خرابی آخر ہے کیا؟
7 ستمبر کو پاکستان نے شارجہ میں کھیلے گئے ایک سنسنی خیز کرکٹ میچ میں افغانستان کو شکست دے دی۔ اس شکست پر افغان عوام کا ردِعمل شدید اور الجھا دینے والا تھا۔ لیکن افغان عوام میں پاکستان کے حوالے سے اس قدر نفرت کیوں بھری ہے؟ آخر وہ دیگر ٹیموں سے بھی تو میچ ہارے ہیں۔
عمومی طور پر اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اس ردِعمل کے بعد پہلے سوشل میڈیا، پھر تھنک ٹینکس اور تقریباً ہر جگہ یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ آخر ان ممالک کے دوطرفہ تعلقات میں کیا خرابی ہے؟
کچھ تجزیہ کار تو ان کشیدہ تعلقات کی بنیاد اس خطے کی پیچیدہ تاریخ کو بتاتے ہیں۔ جیسے افغانستان کے بڑے حصے پر مغلوں کی حکومت، افغان حملہ آوروں کے شمالی ہندوستان پر حملے، سکھوں کی جانب سے ان کے مقابلے اور پھر اینگلو افغان جنگوں کے نتیجے میں جو تلخی پیدا ہوئی اس کی وجہ سے افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد ماننے سے انکار کردیا۔ اکثر تاریخوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1893ء کی ڈیورنڈ لائن جس اتفاق رائے سے حاصل ہوئی تھی وہ ایک سمجھوتے کے بعد حاصل ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں خارجہ پالیسی سے متعلق ہونے والی اہم غلطیاں
تاہم موجودہ افغانستان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ افغان بیانیے کے مطابق 1947ء کے بعد پاکستان اب ان کے لیے ایک ‘دشمن’ کی حیثیت رکھتا ہے اور افغان جن زمینوں کو اپنا سمجھتے ہیں ان کے حصول کے لیے انہیں اس دشمن سے لڑنا ہے۔ وہ اس حقیقت پر توجہ نہیں دیتے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ پاکستان کو تو یہ افغانستان کے ساتھ سرحد کی حیثیت میں غیرمنقسم بھارت سے ورثے میں ملی تھی۔
یوں اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہے کہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی تاہم بعد میں اس نے اپنے اعتراضات واپس لے لیے تھے۔ بعد کے عرصے میں کچھ افغان حکمرانوں کی جانب سے پشتونستان کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، اور وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ پاکستان میں مقیم پشتونوں کی تعداد افغانستان میں مقیم پشتونوں سے زیادہ ہے۔
یہ دشمنی تاریخی تناظر کے علاوہ ماضی قریب سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ گزشتہ 4 دہائیوں کے دوران افغانستان پر پہلے سوویت یونین اور پھر امریکی حملے کے نتیجے لاکھوں افغان باشندے ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ ‘افغان جہاد’ کو پاکستانی سرزمین پر پنپنے دینے، امریکا کی زیرِ قیادت دہشتگردی کے خلاف جنگ اور لاکھوں افغانوں کو پناہ دینے سے ہمارے اپنے معاشرے میں بھی خاصی تبدیلیاں آئیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے بھی افغانستان کو بیرونی قبضے سے آزاد کروانے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی حکومت اور عوام نے افغانوں کے لیے اپنے دل اور دروازے کھلے رکھے۔ انہوں نے یہاں رہائش اختیار کی، یہاں تعلیم حاصل کی، پاکستانی اسپتالوں میں علاج کروایا اور ہر حوالے سے پاکستانیوں کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھایا۔
مزید پڑھیے: ‘افغانستان میں بڑھتی کشیدگی پاکستان کو ماضی میں دھکیل سکتی ہے’
اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ افغانوں کی اکثریت پاکستان سے نالاں ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھنے کی خواہش کے باوجود ہم سے کہاں غلطی ہوئی۔
9 ستمبر کے حملوں کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان نے اس کی مزاحمت کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کا اس حوالے سے مؤقف تھا کہ ایک عسکری فتح کے بجائے سیاسی حل کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ امریکا نے بھی بلآخر طالبان کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کیا اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے بعد وہ افغانستان سے نکل گیا۔ اس کے بعد امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت اور فوج بھی فوراً ہی ڈھے گئی۔
ان 2 دہائیوں کے دوران اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتیں پاکستان کو بہت زیادہ بُرا بھلا کہتی رہیں اور اس کے خلاف بھارتی کارڈ بھی استعمال کیا۔ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ بھارت نے افغان میڈیا میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے تاکہ پاکستان کو افغان عوام کے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے اور پاکستان کی جانب سے افغان حکومتوں، تاجروں، طلبہ اور یہاں تک کہ افغان کرکٹ ٹیم کے حوالے سے کی گئی بے تحاشہ مدد کو کم کرکے دکھایا جائے، اور افغانوں کی ایک پوری نسل اس پروپیگنڈے کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان پر فائدے سمیٹنے کیلئے بھارت، ایران، قطر ہم سے آگے چل رہے ہیں؟
تو آخر پاکستان ان تلخیوں کو کم کرنے کے لیے کیا کرسکتا ہے؟ ایک راستہ تو یہ ہے کہ افغانستان ایک عام، آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دیکھا جائے اور ویسے ہی دوطرفہ تعلقات رکھے جائیں جیسے ہم اپنے دیگر ہمسائیوں اور باقی ممالک کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو کسی بھی صورت میں افغانستان کے گزشتہ و موجودہ حاکموں کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو افغانوں کے ساتھ کُھل کر بات چیت کرنی چاہیے کیونکہ پُرامن بقائے باہمی، مضبوط اقتصادی تعلقات اور انسدادِ دہشتگردی میں تعاون دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
پاکستان اب جیو اکنامکس کو ترجیح پر رکھنا چاہتا ہے، تو اس تناظر میں ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں اصل توجہ دوطرفہ تجارت، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور توانائی کے ذرائع رکھنے والے وسط ایشیا اور چین کے ساتھ رابطے پر ہونی چاہیے۔
ایک مضبوط معاشی تعلق قیامِ امن کا بھی ضامن ہوتا ہے اور اعتماد بھی بحال کرتا ہے۔ جب افغان عوام پاکستان کے ساتھ اس تعلق کے معاشی نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو اس سے باہمی بھروسے اور اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بھائی چارے کے کھوکھلے اظہار سے گریز کریں اور زبانی باتوں کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دیں۔
یہ مضمون 14 ستمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اور کتاب ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔