بُک ریویو: زندگی سے ڈرتے ہو
برِصغیر کی عورت صدیوں سے صدمات سہتی آرہی ہے۔ سماجی، معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی بندھن نے اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ تعصب اور توہمات بھی اس کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں، یہاں تک کہ اس کی صحت کے معاملات کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔
لیکن اب تعلیم نے کچھ بندھن توڑے ہیں، شعور میں اضافہ ہوا ہے اور حقوق نسواں کی بات ہونے لگی ہے۔ ایسی تحریکیں بھی وجود میں آئی ہیں جو خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں۔ اجتماعی اور انفرادی کوششوں کے نتیجے میں خوشگوار ہوا کے جھونکے آنے لگے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی گائنالوجسٹ یعنی ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔ حساس دل اور ذہنِ رسا رکھتی ہیں۔ وہ اپنے مریضوں کے مسائل کو سمجھتی ہیں کہ گھائل کی گت گھائل جانے دوجا نہ جانے کوئے۔
‘زندگی سے ڈرتے ہو’ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی ان مختصر تحریروں کا مجموعہ ہے جو بلاگز کے طور پر معروف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان تحریروں کا بنیادی موضوع عورت ہے۔ عورت کی صحت، اس کے جسمانی، سماجی اور نفسیاتی مسائل۔ اس کتاب میں خاص طور سے ماہواری پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس موضوع کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں جو رویہ پایا جاتا ہے اس نے عورت کی صحت اور زندگی کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے ان توہمات، تعصبات اور جہالت کی باد مخالف میں چراغ جلایا ہے اور ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا ہے۔ انہوں نے ماہواری کے مسائل و مشکلات کو شگفتہ اور رواں انداز میں بیان کیا ہے۔
وہ اپنے کار مسیحائی کے ساتھ قلمکار بھی ہیں اور کہانی کے رمز سے آشنا قصہ گو بھی ہیں۔ کہانی کو کھوجنے کا ڈھنگ انہوں نے شہرزاد سے سیکھا ہے جو ہر روز کہانی سناتی اور اگلے دن کی زندگی پاتی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ عورت کی خوشگوار زندگی کی متلاشی ہیں۔ وہ کڑوے کسیلے موضوعات اور مسائل کو بیان کرتے ہوئے قصوں اور کہانیوں کے تانے بانے کے بیچ سوال کا ٹانکا بھی لگا دیتی ہیں اور پھر جواب دے کر پھاہا بھی رکھ دیتی ہیں۔
وہ اپنی تحریروں میں ادب کا تڑکا لگانے کے لیے مشہور اشعار اور معروف افسانوں اور ڈراموں کے کرداروں کو بھی شامل کرلیتی ہیں جو ان کے حسنِ بیان کو دوبالا کردیتے ہیں۔ یہ قصے کہانیاں صرف مریضوں کی ابتلا تک محدود نہیں بلکہ مصنفہ نے اپنے، اپنی والدہ اور اپنی زندگی کے مسائل بھی بیان کیے ہیں کہ قدرتی عمل میں حجاب کیا معنی۔
مصنفہ نے ان مضامین میں بلوغت کے مختلف مراحل، کم عمری میں ماہواری کی وجہ سے بچیوں میں جذباتی و ذہنی ہیجان کی کیفیات اور جسم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ تسلی بخش حل بھی پیش کیا ہے۔ وہ والدین کو مشورہ دیتی ہیں کہ ڈاکٹر سے مل کر مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اور پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ماہواری زندگی کا اٹوٹ انگ ہے اور ہر شخص کے وجود کا آغاز ماہواری کا محتاج ہے۔ ماہواری نہیں تو آدمی کی زندگی کا وجود نہیں۔ نطفہ ماہواری کے خون سے غذا پاتا ہے اور حیات کو جلا بخشتا ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ماہواری نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ یہی زندگی کی بنیاد ہے اور پھر وہی سوال کہ ‘زندگی سے ڈرتے ہو؟’
انہوں نے فیض احمد فیض کی دردِ دل سے متعلق لکھی ہوئی نظم کو اپنے مضمون میں استعمال کیا اور سوال کیا ہے کہ کاش فیض صاحب کو بھی ماہواری آتی، وہ اس ماہواری کے درد کو محسوس کرتے اور اس درد سے متعلق بھی دل کے درد جیسی لازوال نظم لکھ پاتے۔
وہ لکھتی ہیں کہ فیض نے دردِ دل کو مجسم بنا کر پیش کیا ہے اور قاری اس درد و کرب کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ فیض ماہواری کے درد سے آشنا نہ ہوسکے جو ہر ماہ عورت کا مقدر ہے۔ یوں درد بھری نظمیں رقم ہونے سے رہ گئیں اور الفاظ احساس کی بھٹی سے پگھل کر آبگینہ نہ ہوسکے۔ وہ رشک سے کہتی ہیں کہ ستم ظریفی دیکھیے ہمیں ماہواری بھی آئی، درد سے تڑپے بھی مگر کم نصیبی کہ اسی درد سے مجسم نظم نہ لکھ سکے۔
نظم نہ سہی انہوں نے عورت کے درد و کرب کے افسانچے تو لکھ دیے اور وہ بھی سادگی کی ایسی پُرکاری سے کہ غالب یاد آتا ہے کہ ‘اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا’۔
فیض کے بعد انہوں نے منٹو سے خراج لیا ہے کہ منٹو کو منٹو عورت نے بنایا ہے۔ وہ عورت کی مظلومیت کے کشیدہ کار اور اس کے دکھ کے غمگسار تھے۔ انہوں نے عورت کے کرب کو بے نقاب کرکے رہتی دنیا تک امر کردیا۔
جب ان کی ایک مریضہ نسیم، ماہواری کے داغ دھبوں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے لال شلوار کا تقاضا کرتی ہے تو انہیں منٹو کی سلطانہ یاد آتی ہے جو شنکر سے کالی شلوار کا تقاضا کرتی ہے کہ محرم آنے والا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ منٹو کی سلطانہ اب کالی شلوار کے بجائے لال شلوار کی فکر میں رہتی ہے اور شنکر تھان ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ گاؤں دیہات میں سینیٹری پیڈ کا رواج نہیں اور نہ ہی وہ دستیاب ہیں۔
کسی مضمون میں انہوں نے ماہواری کی ترتیب کے نظام کو سمجھایا ہے تو کسی میں کم یا زیادہ ماہواری پر عورت کی خوفزدگی کی روداد ہے۔ ‘ماہواری بیماری اور وہ سات دن’، میں اسی نکتے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ بتاتی ہیں کہ ہر جسم کا اپنا حساب ہوتا ہے کہ یہ خون 80 ملی لیٹر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے یعنی ایک پاؤ کا تیسرا حصہ، خون کھل کر آنا تو بڑی بوڑھیوں کے دل کے پھپھولے ہیں اور دودھ چھوارے کھلانے کی ترکیب دراصل اپنی حسرت کی تسکین۔
اسی طرح انہوں نے کچھ مضامین میں سن یاس جسے انگریزی میں مینوپاز کہتے ہیں، اس پر بھی بات کی ہے۔ سن یاس کی غم خوردہ عورتوں سے کہا ہے کہ غم نہ کرو زندگی پڑی ہے ابھی۔ ڈاکٹر صاحبہ ہفتے میں ایک دن سن یاس کی کلینک کرتی ہیں جہاں 50 یا اس سے زیادہ عمر کی عورتیں آتی ہیں جنہیں ہمارے یہاں بوڑھا گردانا جاتا ہے، جنہیں زندگی کی رنگینیوں سے ہٹاکر عبادت گزاری کی راہ پر لگا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ بتاتی ہیں کہ پیرس کے ریسٹورینٹ میں انہوں نے 75 کی عمر کی خواتین بھی بنی ٹھنی دیکھی ہیں۔
بیٹی کے استفسار پر وہ اپنے احباب اور مریضوں پر نظر دوڑاتی ہیں تو انہیں مضمحل چہرے سنجیدگی کا نقاب اوڑھے ہلکے مٹیالے پھیکے لباس میں ملبوس، تسبیحاں گھماتی، گھٹنوں کے درد، ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے بے حال نظر آتے ہیں جو زندگی سے بیزار موت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ وہ سن یاس کی شکار خواتین سے کہتی ہیں کہ اپنی زندگی کے ساتھی کو سہارا دیجیے۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلیے۔
ڈاکٹر صاحبہ مشورہ دیتی ہیں کہ سن یاس کی شکار خواتین کو اپنے سینے کا ایکسرے یعنی میموگرافی ضرور کروانا چاہیے تاکہ خطرے سے پہلے ہی پیش بندی کرلی جائے۔ انہوں نے رحم کے کینسر، اس کی اقسام، ان کے علاج کی تدابیر بھی بیان کی ہیں۔
بیٹی کے اس سوال پر کہ آپ کسی روح سے بات کرنا چاہیں تو کس سے کریں گی؟ انہوں نے علامہ اقبال کا انتخاب کیا تاکہ ان سے وضاحت مانگ سکیں کہ ‘وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ’ سے کیا مراد ہے۔ وجودِ زن میں کیا بھایا، گھٹاؤں جیسے گیسو یا آہوئے چشم، گلاب سے رخسار یا پنکھڑیوں سے لب، موتیوں سے دانت یا ہرنی جیسی چال؟
جواب میں اقبال فرماتے ہیں کہ تم اپنی ہم جنس کو اتنا ارزاں سمجھتی ہو کہ اس کے پاس لب و رخسار پر نازاں ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مت بھولو کہ عورت کی ذات منبعِ حیات ہے، جہاں سے حیات کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ خالقِ کائنات نے تمہیں اپنے کمال کا پرتو بنایا ہے۔ حیات کی نمو کا فرض سونپا گیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں جی نمو کی طاقت رکھنے والی عورت کے وجود سے انکار کرنے والا ادب خود بنجر زمین کا ٹکڑا بن جائے گا۔
مصنفہ نے ن م راشد کی ایک نظم سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اسی طرح عذرا عباس کی 2 نظموں کو منتخب کیا اور اپنے مضامین کی بنیاد تعمیر کی۔ عذرا عباس نثری نظم کی معروف شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری میں عورت کے جذبات و احساسات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ عذرا عباس کی نظم ‘میں سخت بیزار اور تھک چکی ہوں۔۔۔’ کو عورتوں کی بیماری پری مینسٹیورل سنڈروم (پی ایم ایس) کی ترجمان گردانتی ہیں کہ اس بیماری میں عورت اس نظم کی سی کیفیت سے گزرتی ہے۔
یہ کیفیت ماہواری سے ایک ہفتے پہلے شروع ہوتی ہے۔ اس بیماری میں پیٹ کا پھولنا، پیٹ میں درد، چھاتی میں اکڑاؤ، چہرے پر مہاسے، قبض یا اسہال، سر درد، تیز روشنی اور بلند آوازیں برداشت نہ کرنا، تھکاوٹ، اکتاہٹ، بیزاری، مایوسی، اداسی، غصہ اور بے چینی سی ہوتی ہے۔
پی ایم ایس 9 فیصد عورتوں کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی معاملات پر بُری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ 5 سے 8 فیصد عورتوں میں پی ایم ایس اس قدر شدید ہوتا ہے کہ خودکشی کا خیال آنے لگتا ہے۔ شدید غصہ، چیخ و پکار اور رونا دھونا، بے خوابی اور شدید چڑچڑا پن، یہ بھی پی ایم ایس کی قسم ہے مگر پری مینسٹیورل ڈسفورک ڈس آرڈر (پی ایم ڈی ڈی) کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اس کا علاج بے چینی کی دواؤں کے علاوہ ورزش، مناسب غذا، پُرسکون ماحول اور 8 گھنٹے کی نیند بتاتی ہیں۔
مصنفہ کو لمبی چوڑی قد کاٹھ کی ڈاڑھی مونچھوں والی مریضہ کو دیکھ کر منٹو کی مسٹر حمیدہ یاد آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اس ابنارملٹی کی وجہ ڈی ایس ڈی کو بتاتی ہیں جس میں xy کروموسومز ملنے کے باوجود کچھ گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ پیٹ میں بچہ بننا ایک پیچیدہ عمل ہے اور کروموسومز کے ملاپ کے بعد ہارمونز کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ ان میں کہیں اونچ نیچ یا کوئی گڑبڑ ہوجائے تو عمل مکمل نہیں ہوپاتا، ان کی مریضہ شہناز بی بی اسی گڑبڑ کا شکار تھی۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے امراضِ نسواں سے متعلق مضامین کا یہ مجموعہ قصے کہانیوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ اس میں نہ صرف ماہواری کی داستان ہے بلکہ ماہواری سے وابستہ امراض، علاج اور آلات کا بھی ذکر ہے جو عام قاری کے لیے آگہی فراہم کرتا ہے اور تفہیم کی راہ کھولتا ہے۔ یہ مجموعہ بتاتا ہے کہ ڈاکٹر مریضوں کا کس قدر ہم درد ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا یہ کام، یہ ساری کوشش و جستجو بے حد اہم اور بہت قابلِ قدر ہے۔ ان کے اس کام کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ وہ جو کام کر رہی ہیں، اس سے ہمارے معاشرے میں نہ صرف شعور کے راستے کھلیں گے بلکہ عورت کی زندگی کے مسائل بھی حل ہوں گے۔
لکھاری ڈائیریکٹر کالجز سکھر و نواب شاہ ریجن ہیں۔ آپ نے اردو فکشن میں سندھ کی ثقافت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔