کھیل

سری لنکا سے ایشیا کپ فائنل میں شکست، یاد رکھنے کے 5 اہم نکات

پاکستان کو کھیلے گئے 6 میچوں میں سے 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جیتنے والے 2 میچوں کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔

اتوار کو دبئی میں ہونے والے ایشیا کپ 2022 کے فائنل میں پاکستان کی ٹیم سری لنکا سے ہار گئی۔

اس میچ سے یاد رکھنے کے 5 نکات یہ ہیں:

1. ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل بدشگونی

اگر آپ وسیع تناظر میں دیکھیں تو فائنل میں جو ہوا وہ مختلف نہیں لگے گا، پاکستان کو پورے ٹورنامنٹ میں کھیلے گئے 6 میچوں میں سے 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جیتنے والے 3 میچوں میں سے 2 کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔

پاکستان کی کامیابی صرف انفرادی کارکردگی کی وجہ سے ہوئی، ٹیم نے واضح طور پر واحد میچ ہانگ کانگ کے خلاف اچھا کھیلا تھا ۔

2. بابر اعظم بیٹنگ میں پاس لیکن کپتانی میں نہیں

ٹیم واضح خامیوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح خود کو فائنل تک پہنچ گئی، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ غلطیوں کا ایک سلسلہ تھا، جس میں سے غلطی کسی اور نہیں خود کپتان نے کی۔

نصف سری لنکن ٹیم پویلین میں واپس جانے کے باوجود بابر اعظم نے ناقابل فہم طور پر دفاعی انداز اپنایا جس پر مصباح الحق کو فخر ہوتا۔

دوسری طرف، افتخار احمد سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹورنامنٹ کے پچھلے تمام میچوں میں ایک بھی گیند نہیں کروائی گئی لیکن فائنل میں انہوں نے 3 اوورز کروائے۔

3. شروع میں محتاط، بعد میں لاپروا تباہی کا نسخہ ہے

پاکستان کی جدید بیٹنگ کی بنیاد بابراعظم اور محمد رضوان ابتدائی طور پر محتاط انداز میں کھیلنے پر رکھ کر 5 اوورز میں 30 کے قریب بناتے اور زیادہ تر وکٹیں ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرتے۔

وہ زیادہ تر مواقع پر آنے والے بلے بازوں کے لیے 50 سے 60 تیز رفتار رنز بنانے جتنے اوور چھوڑتے، ٹاپ ٹیموں میں صرف پاکستان ہی محتاط آغاز اور بعد میں لاپروائی سے بلے بازی کر رہا ہے۔

یہ تصور کرنا کہ حملہ دفاع کی بہترین شکل ہے، یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے پاکستانی اوپنرز نہیں بچ پاتے، اس مخصوص میچ میں محمد رضوان بہت سستی سے کھیلنے کا مجرم تھا۔

4. افتخار، خوشدل، آصف، ایک ہی طرح کے 3 مختلف کھلاڑی

افتخار، خوشدل شاہ اور آصف علی جیسے تینوں کو ایسی کوئی آسائشیں نہیں ملنی چاہئیں، ایسا لگتا ہے کہ ان تینوں کھلاڑیوں کو ایک ہی کپڑے سے کاٹا گیا ہے۔

تینوں ایک ہی طرح کے کھلاڑی ہیں جن کے نام اور چہرے مختلف ہیں۔

ان میں سے کوئی بھی مستند بلے باز نہیں ہے، یہ تینوں ہی چھکے مارنے کی صلاحیت کی وجہ سے ٹیم میں شامل ہیں، درحقیقت، زیادہ گیندیں مس کرتے ہیں اور کم ہٹ مارتے ہیں، اگر یہ ہانگ کانگ کے خلاف نہ کھیل رہے ہوں۔

5. خوابوں کی تکمیل کے لیے ٹیم ورک ضروری

سری لنکا کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، پاکستانی ہونے کے ناتے ہم سوچ سکتے ہیں کہ گزشتہ برس سے مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، سیلاب، ڈینگی اور دیگر مسائل کے ساتھ صرف ہم نے ہی مشکل میں گزارا ہے، اگر زیادہ نہیں تو سری لنکا نے بھی کم از انہی حالات کا سامنا کیا ہے۔

اگر پاکستان چیمپیئن نہ بنا تو تاج کے لیے اس جزیرے کی قوم سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہوسکتا تھا، ٹیم میں اسٹارز کی کمی تھی، وہ انہوں نے اپنی ہمت، عزم اور استقامت کے ذریعے پوری کی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کچھ آؤٹ آف فارم بلے بازوں، غیر مستحکم سکس ہٹرز اور کچھ عالمی معیار کے باؤلرز کےساتھ منقسم نظر آئی، سری لنکا محض ایک اچھی ٹیم تھی اور ‘ٹیم ورک خوابوں کو پورا کرتا ہے’ کا حقیقی مجسمہ نظر آئی۔

ایشیا کپ میں شکست کے بعد ثقلین مشتاق ٹیم کے کھیلنے کے انداز کے دفاع میں آگئے

ہم کب پسند ناپسند اور دوستی نبھانے کے کلچر سے باہر نکلیں گے، شعیب ملک کا سوال

پاکستان کی بیٹنگ کو روند کر سری لنکا ایشیا کپ کا چمپیئن بن گیا