ایشیا کپ فائنل: جیت حقدار کو مل گئی!
ٹورنامنٹ کے پہلے ہی میچ میں پوری ٹیم 105 پر ڈھیر ہوجاتی ہے اور پھر وہ ہدف بھی 11ویں اوور میں پورا ہوجاتا ہے۔ اس وقت تو ایسا لگ رہا تھا جیسے افغانستان کے ہاتھوں اس شکست نے سری لنکا کو سپر 4 میں پہنچنے سے بھی روک دیا ہے، مگر اس کے بعد سری لنکن ٹیم نے ایسی واپسی کی کہ کوئی میچ نہیں ہاری، بھارت، افغانستان اور پھر پاکستان (دو بار) کو شکست دے کر چھٹی بار ایشین چیمپیئن بن گئی۔
پچھلے سال متحدہ عرب امارات میں کھیلے جانے والے ٹی20 ورلڈکپ کے بعد یہ بات واضح دکھائی دینے لگی کہ ٹاس جیتنے والی ہر ٹیم پہلے باؤلنگ کو ترجیح دیتی ہے اور جیت کی اوسط بھی ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کا زیادہ ہے، مگر ایشیا کپ کے فائنل میں سری لنکا نے اس روایت کو بھی توڑ دیا۔
ایک نوجوان کپتان کی نوجوان ٹیم، جس میں واحد سپر اسٹار وننگو ہاسارنگا تھے، مگر شاید فتح کے لیے ٹیم میں سپر اسٹارز نہیں بلکہ آخری گیند تک لڑنے والے کھلاڑی درکار ہوتے ہیں، جذبہ درکار ہوتا ہے اور پہلی گیند سے مخالف ٹیم پر بھرپور طریقے سے حملہ درکار ہوتا ہے اور سری لنکا نے یہ سارے کام بخوبی انجام دیے۔
پورے ٹورنامنٹ میں کبھی ان کی شروعات اچھی نہ رہی تو کبھی درمیان میں مسائل رہے لیکن نتیجہ ہر بار سری لنکا کی فتح کی صورت سامنے آیا۔
سری لنکن ٹیم کی اس زبردست فارم کا آغاز آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میں شروع ہوا جہاں کھیلی جانے والی ٹی20 سیریز میں اگرچہ اسے ابتدائی 2 میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، مگر پھر نہ صرف اس نے تیسرا میچ جیتا بلکہ ایک روزہ سیریز بھی اپنے نام کی۔
ایشیا کپ کے آغاز سے پہلے ہر کوئی پاکستان اور بھارت کو فیورٹ قرار دے رہے تھے، مگر ان تمام تر تجزیوں کو بھی یہ ٹیم کسی خاطر میں نہیں لائی۔ اس ٹیم کی خاصیت یہ رہی کہ اس نے چند ایک کھلاڑیوں پر تکیہ کرنے کے بجائے ٹیم ورک پر توجہ دی، یہی وجہ ہے کہ ٹورنامنٹ میں زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں ٹاپ تھری میں کوئی بھی سری لنکن نہیں ہے لیکن اگلے تینوں نام سری لنکا سے ہیں، اور ان تینوں کھلاڑیوں کے رنز محمد رضوان اور ویراٹ کوہلی کے بنائے گئے رنز سے کہیں اہم ثابت ہوئے۔
اسی طرح باؤلنگ کے شعبے میں بھی ہاسارنگا کے علاوہ کوئی تجربہ کار باؤلر نہیں تھا مگر ہر کسی نے اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ نوجوان فاسٹ باؤلرز لائن اور لینتھ پر مشکلات کا شکار رہے لیکن فتح کے لیے اپنا پورا زور لگاتے رہے۔
سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم یہ ٹورنامنٹ جیتنے کی ہرگز حقدار نہیں تھی۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم 90ء کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ابتدائی اوورز میں وکٹیں بچانے کی کوشش ہوتی تھی اور بتدریج رنز بڑھاتے ہوئے آخری 10، 15 اوورز میں تیزی سے رنز بنا کر 250 تک پہنچا جائے۔
یہ وہ دور تھا جب 250 ایک وننگ اسکور ہوتا تھا۔ اس دوران مختلف کھلاڑی خاص طور پر سنتھ جے سوریا اس روایت سے ہٹ کر بھی چلے لیکن عموماً کرکٹ ایسے ہی ہوتی تھی۔ پھر سوچ، وکٹیں، باؤلرز اور قوانین سب بدلتے گئے اور رنز کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ ایک روزہ کرکٹ میں نہ صرف 400 رنز بنے بلکہ اس ہدف کا کامیابی سے تعاقب بھی ہوا۔
پھر ٹی20 کی آمد کے بعد تو مزید تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں، مگر پاکستانی ٹیم ابھی بھی 90ء کی کرکٹ کھیل رہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان نے ٹی20 کرکٹ میں 200 کا ہندسہ کئی بار عبور کیا لیکن شاذ ہی کہیں پاور پلے میں 50 سے زیادہ رنز بنائے ہوں یا بنانے کی کوشش کی گئی ہو۔ مکی آرتھر نے بابر اعظم کو بطور اوپنر کھلایا تو ساتھ یہ بھی سمجھا دیا کہ پورے 20 اوورز کھیلنے ہیں۔ مکی آرتھر تو چلے گئے مگر بابر اور پھر محمد رضوان نے یہ بات پلے باندھ لی۔ رضوان اور بابر پاکستان کے لیے تسلسل سے رنز تو بنا رہے ہیں مگر ٹی20 کرکٹ میں اکثر 40 گیندوں پر بنائی گئی نصف سنچری مخالف ٹیم کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔
اب سنا ہے مکی آرتھر بیان دیتے ہیں کہ یہ جوڑی نہیں چلے گی، ان دونوں میں سے کسی ایک کو نیچے آنا ہوگا اور فخر کو اوپنر بنا دیا جائے۔ مگر فخر کا کیا کریں کیونکہ ماضی میں جو فخر زمان دھواں دھار آغاز دیا کرتے تھے، اب انہیں بھی سیٹ ہونے کے لیے 15، 20 گیندیں درکار ہیں پھر چاہے ون ڈے ہو یا ٹی20، سامنے ہانگ کانگ ہو نیدرلینڈز یا انڈیا۔
اس پورے ٹورنامنٹ میں فخر اور بابر کی مسلسل ناکامی کے باوجود پاکستانی ٹیم کی جانب سے حیدر علی کو موقع نہ دینا بھی سبھی کے لیے تعجب خیز رہا، خاص طور پر سری لنکا کے خلاف آخری گروپ میچ میں تو حیدر کو کھلایا جاسکتا تھا۔
یہیں سے مڈل آرڈر کا آغاز ہوتا ہے اور اس مڈل آرڈر کے بارے میں ہر پاکستانی کرکٹ شائق کی الگ رائے ہے لیکن ایک بات سبھی مانتے ہیں کہ یہ ‘مڈل آرڈر نہیں چلے گا’۔
بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مڈل آرڈر میں کم گیندیں کھیل کر زیادہ رنز بنانے کا دباؤ ہوتا ہے تو اسی لیے ناکامی کے امکانات بھی زیادہ ہیں، یوں ایسے بیٹسمینوں کو اپنی جگہ بنانے کے لیے نسبتاً زیادہ اننگز درکار ہوتی ہیں۔ چلیں یہ تو مان لیا کہ ایسا یہ لوگ اعداد و شمار کی بنیاد پر کہتے ہیں مگر اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سال افتخار احمد نے 6 اننگ میں بیٹنگ کی اور اس دوران ان کا اسٹرائیک ریٹ محض 101 رہا۔ اس دوران 3 بار افتخار نے 20 سے زیادہ گیندیں کھیلیں لیکن وہ ہر ایسی اننگ میں ٹیم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچانے کا سبب بنتے رہے۔
پھر خوشدل شاہ ہیں جنہوں نے بقول پاکستانی فینز ٹی20 میں کبھی دل خوش نہیں کیا۔ خوشدل نیشنل ٹی20 کپ میں 40 سے کم گیندوں پر سنچری بنا چکے لیکن پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے ان کا اسٹرائیک ریٹ محض 110 ہے۔ خوشدل کے 10 میں سے 8 چھکے ہانگ کانگ اور زمبابوے کے خلاف 2 میچوں میں لگائے گئے ہیں۔
آصف علی ان دونوں کی نسبت تیز تو کھیل رہے ہیں اور پچھلے ایک سال کے دوران آصف نے چند فتوحات میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسپنرز کو کھیلنا آصف کے بس کی بات نہیں۔ وہ نہ صرف سری لنکا کے خلاف دونوں میچوں میں ہاسارنگا کی پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوئے بلکہ بھارت کے خلاف بھی روی بشنوئی کی گیند پر آؤٹ ہوجاتے مگر ارشدیپ سنگھ نے آسان سا کیچ چھوڑ دیا۔ اسپن باؤلرز کے خلاف ایسے کھیل کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ میں کامیابی کی توقع دیوانے کے خواب جیسی ہے۔
محمد نواز اور شاداب خان وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے اس پورے ٹورنامنٹ میں تسلسل کے ساتھ اچھا کھیل پیش کیا۔ وکٹیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ رنز بھی بناتے رہے اور اچھی رفتار سے بناتے رہے۔ حسن علی کے ایک میچ کے علاوہ فاسٹ باؤلرز کی کارکردگی بھی عمدہ رہی، خاص طور پر اس ایونٹ میں اپنا ٹی20 ڈیبیو کرنے والے نسیم شاہ تو سبھی کو متاثر کرگئے۔
پاکستانی فاسٹ باؤلرز اس ٹورنامنٹ میں تسلسل کے ساتھ 140 سے زائد رفتار سے گیند کرتے رہے جو یقینی طور پر خوش آئند ہے۔ اسی رفتار کے ساتھ سوئنگ مزید خوش آئند ہے اور شاہین شاہ آفریدی کی واپسی اس اٹیک کو مزید مضبوط کرے گی۔
نتائج کو ایک طرف چھوڑ کر پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ سے متعلق سوچ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ پاور پلے میں پاکستانی ٹیم کبھی وکٹ کھوئے بغیر اور کبھی ایک وکٹ پر 40 کے آس پاس رنز کرتی ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاور پلے میں پاکستانی ٹیم نے 6 میچوں میں 248 رنز بنائے جو فی میچ 41 رنز بنتے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ کھلاڑی تیز نہیں کھیل سکتے بلکہ لگتا یہ ہے کہ وہ تیز کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔
اگر ایک یا دو کھلاڑی ایسے کھیلیں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پکی کرنے کے لیے ایسا کھیل رہے ہیں مگر جب ہر کھلاڑی وکٹ پر سیٹ ہونے کے لیے کئی گیندوں کا استعمال کرے تو مسئلہ پلاننگ میں ہے اور اس میں کھلاڑیوں کے ساتھ کپتان اور کوچز کا بھی پورا ہاتھ ہے۔
اس وقت قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ محمد یوسف جب انتظامیہ سے باہر تھے تو مسلسل ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھتے تھے اور شاید انہیں خاموش کرنے کے لیے ہی کرکٹ بورڈ میں عہدہ اور پھر بیٹنگ کوچ بنا دیا گیا۔ محمد یوسف ایک بہترین بیٹسمین رہے ہیں مگر ایک اچھا بیٹسمین ایک اچھا کوچ بھی ہو، یہ ضروری تو نہیں اور بیٹسمینوں کی کارکردگی سے واضح ہے کہ کم از کم وائٹ بال کرکٹ میں محمد یوسف کی کوئی جگہ نہیں۔
رمیز راجا یوٹیوب چینل پر تبصرے کرتے تھے تو ان کے خیال میں پاکستانی ٹیم کے ہر مسئلے کا حل جارحانہ اپروچ میں تھا۔ وہ ہمیشہ شکست کی اہم ترین وجہ سُست کھیلنے اور بزدلانہ سوچ کو قرار دیتے تھے لیکن جب سے وہ چیئرمین کرکٹ بورڈ بنے ہیں، آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کی ٹیسٹ وکٹوں سے لے کر ٹی20 میں ٹیم کی بیٹنگ اپروچ تک جارحانہ پن کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔