نقطہ نظر

جب اہلِ سوات نے ملکہ الزبتھ دوم کا استقبال کیا

دورے کے اختتام پر ملکہ نے والی سوات سے اہل سوات کی مہمان نوازی اور سوات کے فطری حسن کی تعریف کی۔

’ہم ان دنوں (1961ء) ودودیہ اسکول میں چھٹی جماعت کے طالبِ علم تھے۔ جب ہمیں پتا چلا کہ ملکہ الزبتھ آرہی ہیں تو ہم دیگر لوگوں کے ساتھ اسکول کے گیٹ کے سامنے ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس وقت ہمارے ہیڈ ماسٹر حسین خان نے ہمیں ہدایت کی کہ جیسے ہی ملکہ کی گاڑی اسکول کے سامنے سے گزرنے لگے، تو آپ لوگوں نے کہنا ہے: ‘Long Live the Queen’ ہم نے ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ یاد کرلیے، جس کی اس وقت ہمیں بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پھر جیسے ہی ملکہ کی گاڑی ہمارے سامنے سے گزرنے لگی، تو ہم نے پُرجوش انداز میں ان کا استقبال ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ ‘Long Live the Queen’۔

یہ کہنا ہے سیدو شریف، سوات کے 76 سالہ محمد اسمٰعیل کا جو اس وقت ریاست سوات کے اوّلین اسکول ‘گورنمنٹ ہائی اسکول ودودیہ’ کے طالب علم تھے۔

محمد اسمٰعیل کی طرح ریاستی دور کے دیگر بزرگوں کا کہنا ہے کہ ملکہ الزبتھ 1961ء میں 3 دن کے دورے پر ریاست سوات آئی تھیں۔ اپنے مختصر دورے میں انہوں نے ریاست کی کئی جگہیں دیکھی تھیں جن میں سیدو شریف، مرغزار اور کبل کے علاقے خاص تھے۔

ایک انگریز مصنف فریڈرک بارتھ (Fredrik Barth) نے ریاست سوات کے والی میانگل عبدالحق جہانزیب کی سوانح عمری ‘The Last Wali of Swat’ کے عنوان سے لکھی۔ اس کتاب کا ترجمہ غلام احد (ایڈووکیٹ) نے ‘والی سوات کی آپ بیتی’ کے عنوان سے کیا ہے۔ مؤخر الذکر کتاب کے صفحہ نمبر 182 اور 183 پر ملکہ برطانیہ کی سوات آمد کی کہانی ریاست کے والی (جنہیں عام طور پر والی سوات یا والی صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے) کے الفاظ میں یوں درج ہے

‘1961ء میں ملکہ الزبتھ اور ان کے شوہر پرنس فلپ سوات آئے۔ ہوا کچھ یوں کہ 1959ء میں شہزادہ فلپ پاکستان اور ہندوستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے سوات کی سیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے یہاں صبح چکور اور شام کو مرغابیوں کا شکار کیا۔ وہ 2 راتیں گزار کر اگلی صبح یہاں سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے سوات کو بہت پسند کیا اور شکار سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ بہت ذہین آدمی تھے۔’

دوسرے پیراگراف میں کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ ‘1960ء میں ایوب خان غیر سرکاری دورے پر انگلستان گئے۔ میرا بیٹا اورنگزیب بھی ان کے ساتھ تھا، جس نے بعد میں مجھے یہ کہانی سنائی کہ ونڈسر محل میں کھانے کے دوران ایوب خان نے تجویز پیش کی کہ ملکہ کو پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے، تو اچانک شہزادہ فلپ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ‘بشرطیہ کہ آپ ہمیں سوات لے جائیں’۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فروری 1961ء میں سوات آئے’۔

فریڈرک بارتھ نے اپنی انگریزی میں لکھی گئی کتاب The Last Wali of Swat کے صفحہ نمبر 120 پر باقاعدہ طور پر سال 1961ء سے پہلے اس مخصوص دن یعنی 7 فروری کا ذکر بھی کیا ہے، مگر پتا نہیں کیوں ترجمہ کرتے وقت مترجم غلام احد (ایڈووکیٹ) کا دھیان اس طرف نہیں گیا۔

ایک اور کتاب ‘داستان سوات (سوات کا تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی منظر نامہ)’ از عبدالقیوم (حافظ خیل) کے صفحہ نمبر 63 پر ‘ملکہ الزبتھ کی آمد’ کے عنوان سے ایک تفصیل کچھ یوں درج ملتی ہے کہ ‘فروری 1961ء میں ملکہ الزبتھ سوات تشریف لائیں۔ یہاں نوبہار آنے کے آثار پیدا ہوگئے تھے۔ ان دنوں سوات میں بہار کی آمد آمد تھی۔ سڑک کے دونوں طرف کھیتوں میں سرسوں کے سنہرے نیم کشادہ پھول مستی میں جھوم رہے تھے۔ چاروں طرف پہاڑ برف سے ڈھکے تھے اور بادل کی وجہ سے سورج دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ملکہ عالیہ شکار کے لیے سویگلئی جارہی تھیں جہاں اسٹیٹ کی شکار گاہ تھی۔ سیدو شریف سے شکار گاہ تک سڑک محرابوں سے سجائی گئی تھی۔ بعض جگہوں پر محرابوں کا درمیانی فاصلہ پھولوں اور پتوں سے ڈھانکا گیا تھا۔ آپ کی گاڑی کالی مرسڈیز بڑی آہستہ رینگتی ہوئی حرکت کررہی تھی۔ ہم ہائی اسکول کے طلبہ نفیس کپڑوں میں ملبوس ایک ہاتھ میں پاکستان کی جھنڈی اور دوسرے میں برطانیہ کی جھنڈی پکڑے سڑک کے دونوں جانب قطار میں کھڑے تھے۔ جب ملکہ عالیہ کی سواری آپہنچی تو کچھ لڑکے کہتے ‘لانگ لیو’ (Long Live) باقی لڑکے کہتے ‘دی کوین’ (The Queen)۔ ملکہ عالیہ بہت خوش تھیں اور مسکراہٹ کے ساتھ دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر استقبالیہ کلمات کا جواب دیتی تھیں’۔

سیدو شریف پولیس اسٹیشن کے ساتھ ایک پرانی دیوار کھڑی ہے جوعجیب سی ہے۔ میں جب بھی اس کے پاس سے گزرتا تو یہی خیال آتا کہ ٹھیکیدار نے اینٹیں بچانے کی خاطر اسے یہ عجیب سی شکل دی ہوگی۔ یہ غالباً 2010ء کے موسمِ سرما کی بات ہے۔ ایک 70، 75 سالہ بزرگ دھوپ سینک رہے تھے۔ انہوں نے موٹے شیشوں والی عینک لگائی تھی جسے پیچھے رسّی نما تار سے کس کر باندھا تھا۔ اس وقت مجھے ان کا نام یاد نہیں۔ ان کے بقول یہ دیوار ملکہ برطانیہ کے ریاست آنے سے ایک روز قبل تعمیر کی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ‘میرے والد کہتے تھے کہ ملکہ کے آنے سے پہلے جب تمام تیاریاں مکمل ہوئیں، تو والی صاحب (والی سوات، میانگل عبدالحق جہانزیب) نے گاڑی میں بیٹھ کر بازار کا جائزہ لیا۔ اس مقام پر پہنچے، تو گاڑی روک لی۔ نیچے کچے مکانوں کا ایک چھوٹا سا محلہ تھا جسے ‘خوڑگئی’ (چھوٹی ندی) کہتے ہیں۔ یہ محلہ، شاہی حویلی سے بمشکل 2 ڈھائی سو میٹر دُوری پر تھا۔ والی صاحب گاڑی سے اترے، بھنویں سکیڑ کر جائزہ لینے لگے اور تھوڑی دیر بعد کھڑے کھڑے احکامات صادر کیے کہ اس محلے پر ملکہ کی نظر نہیں پڑنی چاہیے۔ یہ تو بالکل مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہے۔ کل کا سورج نکلنے سے پہلے پہلے یہاں ایک عارضی دیوار کھڑی دکھنی چاہیے’۔

بابا نے مزید کہا کہ ‘آج کے اس جدید دور میں بھی اتنی لمبی دیوار جو پورے محلے کو نظروں سے اوجھل کردے، ایک رات میں تعمیر کرنا مشکل ہے’۔

دوسری طرف سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں کہ ‘والی سوات نے احکامات صادر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیوار عارضی (صرف 3 دنوں کے لیے) بنائی جائے، مگر، آج 60، 61 سال گزرنے کے باوجود اس کا بیشتر حصہ موجود ہے’۔

فیاض ظفر آگے کہتے ہیں کہ اس وقت والی سوات کی حویلی کے ایک ملازم عبدالواحد جن کی عمر اب 94 سال ہے، سے میں نے انٹرویو لیا ہے۔ ان کے بقول ‘ملکہ کے پہنچنے سے پہلے ریاست کے وزرا اور اعلیٰ عہدیدار اور عمائدینِ علاقہ ایک قطار میں استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ جیسے ہی ملکہ پہنچیں تو ان کا پُرجوش استقبال کیا گیا۔ والی سوات نے ملکہ کا سب سے تعارف کروایا۔ ملکہ نے شاہی حویلی میں 2 راتیں قیام کیا تھا۔ ایک رات مرغزار کے ‘وائٹ پیلس’ میں گزاری تھی جہاں ان کے لیے خصوصی طور پر ایک کمرہ سجایا گیا تھا۔ سہ روزہ دورے کے اختتام پر جب ملکہ روانہ ہورہی تھیں تو انہوں نے والی سوات سے اہلِ سوات کی مہمان نوازی اور سوات کے فطری حسن کی تعریف کی’۔

ملکہ برطانیہ کے لیے والی سوات نے تحائف کا انتظام بھی کر رکھا تھا جس کا ذکر میں نے اپنے بلاگ سوات کیپ ہاؤس، ایک عہد ساز ادارہ میں تفصیلاً کیا ہے۔

یہاں اس سے ایک پیراگراف حوالتاً درج کیا جاتا ہے۔

’ملک اورنگزیب (سوات کیپ ہاؤس کے مالک) کہتے ہیں کہ ‘1949ء میں جب وزیرِاعظم پاکستان خان لیاقت علی خان والی سوات کی تاج پوشی کے سلسلے میں سوات آئے تھے، تو میرے والد ملک فضل کریم جان نے ایک قراقلی ٹوپی اور چوغہ تیار کرکے ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملکہ الزبتھ دوم جب 1961ء میں سوات آئیں، تو والی سوات نے میرے والد کو حکم دیا کہ ملکہ کے لیے ٹوپی کے ساتھ ایک عدد پرس بھی تیار کیا جائے۔ اس وقت تیار ہونے والے پرس کے 2، 3 ڈیزائن اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔’

ٹوپی تو ملک اورنگزیب کے پاس نہیں پڑی مگر مذکورہ پرس آج بھی وہ دکان پر آنے والوں کو فخر سے دکھایا کرتے ہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔