فیصلوں پر تنقید کرنا توہین عدالت نہیں ہوتی، جج اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عدالتوں کی قانونی حیثیت، ان کی عزت و وقار ان کے فیصلوں کے معیار پر منحصر ہے اور عدالتی فیصلوں پر بےجا تنقید توہین نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یہ ریمارکس پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی جانب سے دیے گئے عدلیہ مخالف بیانات پر ان کے خلاف رواں ہفتے کے اوائل میں دائر کردہ درخواست کو مسترد کیے جانے کے تفصیلی فیصلے میں سامنے آئے ہیں۔
ایک ٹی وی چینل پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر ایڈووکیٹ سلیم اللہ خان کی جانب سے فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس، 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل
تفصیلی حکم نامے میں جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی قانونی حیثیت اور اخلاقی اختیار و عمل داری اس کے فیصلوں پر تنقید پر عدالتی پابندیاں عائد کرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے فیصلوں کے معیار یا میرٹ پر ہونی چاہیے۔
تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ لہٰذا یہ عدالت نہیں سمجھتی کہ مدعا علیہ (فواد چوہدری) کی جانب سے اس عدالت کے فیصلے پر نامناسب اور غلط فہمی پر مبنی تنقید اس عدالت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کو کوئی سنگین یا خاطر خواہ نقصان پہنچائے گی جس کے پیش نظر جواب دہندہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی سے متعلق مقدمہ چلایا جائے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کیا کہ فواد چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف تضحیک آمیز، حقارت آمیز ریمارکس دیے اور کہا کہ جج کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر مبینہ تشدد کے معاملے کو نظر انداز کرنے پر معافی مانگنی چاہیے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کی جانب سے درخواست گزار سے استفسار کیے جانے پر کہ فواد چوہدری کے خلاف کس نوعیت کی توہین عدالت کی کارروائی کی جائے درخواست گزار نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف فوجداری توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا شوکاز نوٹس ارسال
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ فواد چوہدری نے چیف جسٹس اور ہائی کورٹ کے دیگر ججز کو تضحیک آمیز انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا، اس عدالت کو ان کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنی چاہیے اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھی عدلیہ مخالف بیانات دینے سے روکنا چاہیے۔
جسٹس بابر ستار نے نشاندہی کی کہ جج کو اسکینڈلائز کرنے کا جرم عام قانون کے تحت بنایا گیا تھا تاکہ انصاف کی فراہمی کے نظام پر عوام کے اعتماد کو مجروح نہ کیا جا سکے۔
بابر ستار نے مزید کہا کہ اس قانون کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کہ کسی جج یا عدالت کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہو، کسی جج کے خلاف تعصب یا جانبداری کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہو یا کسی جج اور عدالت پر کسی دباؤ اور اثر و رسوخ کے تحت فیصلے کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہو۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 19 شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، تاہم یہ حق قانون کی جانب سے عائد کردہ کچھ معقول پابندیوں کے تحت قابل استعمال ہے، اس حق کے استعمال کے لیے عائدہ کردہ معقول پابندیوں میں سے ایک پابندی توہین عدالت بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس : عمران خان 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں طلب
عدالت نے قرار دیا کہ اس کیس میں درخواست گزار نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فواد چوہدری نے اپنے بیان میں عدالت میں زیر سماعت معاملے سے متعلق رائے کا اظہار کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی تقریر فوجداری توہین کے دائرے میں نہیں بلکہ جوڈیشل توہین کے دائرے میں آئے گی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پر تنقید کی بنیاد پر عدالتی توہین کا سوال ہے تو آزادی اظہار کے حق اور انصاف کی فراہمی میں عوامی مفاد کے درمیان توازن قائم کرتے ہوئے عدالت کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ توہین عدالت کا قانون آئین کے آرٹیکل 19 کی ضمانت دی گئی آزادی پر کم سے کم قدغن لگائے۔