درآمدی ایل سیز نہیں کھولنے دے رہے، برآمدکنندگان کی ہر ایل سی کھلے گی، وفاقی وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ ابھی درآمدی ایل سیز کھولنے نہیں دے رہے لیکن برآمدکنندگان کی ہر ایل سی کھلے گی اور ان کے اسپیئر پارٹس بھی آئیں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا لاہور چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ کی پوری کپاس تباہ ہو گئی ہے، ہمیں کپاس درآمد کرنا پڑے گی، ہم ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے کپاس اور ایندھن، گیس اور بجلی فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ برینٹ کی قیمت اس وقت 40 ڈالر تھی، ہمیں گیس ساڑھے 4 یا 5 ڈالر میں ملتی تھی، آج جب گیس 8 گنا مہنگی ہو کر 40 ڈالر کی ہو جائے، اسی طرح فرنس آئل 6 کی قیمت ، 7 گنا بڑھ جائے اور کوئلے کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جائے تو ہم پرانی دنیا میں نہیں رہ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم حکومت میں آئے تھے توپاکستان کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا، پہلے وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے پُرتعیش اشیا کی درآمدات روکا تھا لیکن اس پر اب پابندی ختم کردی ہے، ہم نے اس میں پرفیوم، مچھلی کا مہنگا گوشت وغیرہ روک دیا تھا لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا، آج بھی لاہور کے ریسٹورنٹس میں سائمن مچھلی مل رہی ہے لیکن حکومت کو اس کی ڈیوٹی نہیں مل رہی، ہم نے ان مصنوعات پر پابندی ختم کرکے ڈیوٹی بڑھا دیا ہے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہم نے الیکٹریکل اپلائنسز روکی تھیں، برآمدی گاڑیاں روکیں، پاکستان میں موبائل فون اسمبل ہوتے ہیں ہم نے کہا کہ آدھے موبائل فون درآمد کرو، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہے، معاشی اصول کے تحت میں فری مارکیٹ میں ڈالرکی قدر میں اضافہ ہونے دوں اور جس کو جو منگوانا ہے وہ منگوا لے، اس سے یہ ہوگا کہ آج 3 کروڑ روپے کی گاڑی شاید 6 کروڑ روپے کی ہو جائے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چند لوگ تو 6 کروڑ روپے میں بھی گاڑی خرید لیں گے لیکن کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو آٹا نہیں خرید سکیں گے، اسی طرح کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو خوردنی تیل نہیں لے سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: قوم کو پرانے طور طریقے بدل کر اپنے وسائل میں رہنا ہوگا، مفتاح اسمٰعیل
انہوں نے کہا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ستمبر میں قدغن ختم کردیں گے، اور ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ ستمبر کے بعد اس پر پابندی برقرار رکھیں، ابھی میری برآمدکنندگان سے ملاقات ہوئی ہے، میں نے ان سے معافی مانگی ہے، میں کسی بھی ایکسپورٹر کو نہیں روکنا چاہتا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ یہ ہمارا فیصلہ نہیں ہے کونسی ایل سی کھلے، یہ فیصلہ آپ کا ہونا چاہیے لیکن ابھی میں درآمد کی ایل سیز کو کھولنے نہیں کھولنے دے رہا، سندر انڈسٹریل ایریا میں میرے بیٹے کی چپس کی فیکٹری کے لیے بھی درآمدی ایل سی کھولنے کی اجازت نہیں دے رہا، برآمدکنندگان کی ہر ایل سی کھلے گی، ایکسپورٹر کے اسپیئر پارٹس بھی آئیں گے، 85-84 میں 5 فیصد برآمدات ازخود کھل جائے گا، اگر مشین کی برآمد 75 فیصد کرلی ہے تو 25 فیصد کی اجازت دیں گے، اس کے علاوہ جو بھی مسائل ہیں ہم اسے حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ستمبر میں ہم اسے ختم کرنا چاہتے تھے لیکن ملک میں سیلاب آگئے جس کی وجہ سے سندھ کی پوری کپاس تباہ ہو گئی ہے، ہمیں کپاس درآمد کرنا پڑے گا، ہم ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے کپاس، ایندھن، گیس اور بجلی فراہم کریں گے، اسی طرح سندھ میں چاول کی 2 تہائی فصل ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے شدید مشکلات ہیں۔
‘سیلاب سے تقریباً 18 ارب 50 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے’
مفتاح اسمٰعیل کا مزید کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کے تخمینے کے مطابق ملک بھر میں حالیہ سیلاب سے تقریباً 18ارب 50 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے، وفاقی ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) نے کہا ہے 30 ارب کی نجی املاک کو نقصان پہنچا ہے، 6 ہزار 500 کلو میٹر کی سڑکیں تباہ ہوئی ہیں، جن کو ہمیں دوبارہ بنانا پڑے گا، 246 برج ٹوٹ گئے ہیں جبکہ 17 لاکھ مکانات تباہ ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: 2 ماہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مہنگائی پر قابو پالیں گے، وزیر خزانہ
انہوں نے کہا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے مجھے بتایا کہ سیلاب سے سندھ میں 30 لاکھ کچے مکانات بھی تباہ ہوئے ہیں، 10 لاکھ جانور ہلاک ہوئے ہیں اور 481 بچوں سمیت 1300 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں، 6 لاکھ حاملہ خواتین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، 2 ہزار 500 بچے روزانہ طبی مدد کے بغیر پیدا ہورہے ہیں۔