منی لانڈرنگ کیس: وزیراعظم، حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستیں، فرد جرم ایک بار پھر مؤخر
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی درخواستیں دائر کیے جانے کے بعد فرد جرم کی کارروائی ایک مرتبہ پھر مؤخر کردی گئی۔
اس مقدمے میں دونوں کی ضمانت قبل از گرفتاری پہلے ہی منظور کی جاچکی ہے۔
لاہور کی خصوصی عدالت نے دونوں کو آج فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کیا تھا تاہم وزیر اعظم کے وکیل امجد پرویز نے اپنے مؤکل کی جانب سے اسلام آباد میں سیلاب سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف ہونے کے باعث ایک روز کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز فرد جرم کیلئے 7 ستمبر کو عدالت طلب
وزیر اعظم کے وکیل پرویز اور حمزہ شہباز کے وکیل محمد اورنگزیب آج عدالت میں پیش ہوئے۔
وزیر اعظم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے کرپشن کیس میں بریت کے لیے الگ الگ درخواستیں دائر کیں۔
امجد پرویز ملک نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف اہم سرکاری مصروفیات کے باعث آج عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے اس لیے ایک دن کی استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے مدعا علیہان کو بے بنیاد کیس میں نامزد کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ایسا تباہ کن سیلاب کبھی نہیں دیکھا، وزیر اعظم کی زیر قیادت تمام سرکاری محکمے اور اہلکار امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں مصروف ہیں۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی
جج نے کہا کہ سماعت کے لیے 10 منٹ کا وقت نکالنا اتنا مشکل نہیں تھا۔
وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل کا سماعت کے لیے لاہور آنا ضروری تھا۔
دوسری جانب حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوئے، وکلا نے استدلال کیا کہ کیس میں سزا کا کوئی امکان نہیں ہے اور انہیں بدعنوانی کے مقدمے سے بری کرنے کا مطالبہ کیا۔
شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالتی احکامات کے تحت کمپنیوں کے اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے گئے، عدالت سے استدعا کی کہ وہ غیر منجمد کرنے کے احکامات جاری کرے۔
سماعت میں موجود ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایجنسی کو اکاؤنٹس غیر منجمد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا اور سماعت 17 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔
منی لانڈرنگ کیس
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے، ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی توثیق
ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپڑاسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔
ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایف آئی اے چالان میں مرکزی ملزم نامزد
چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کی مدد سے کیا۔
ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرم کی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔‘
چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر براجمان رہے تھے۔