کہا گیا مرکزی کردار چاہیے تو رنگت گوری کرنی پڑے گی، جینس ٹیسا
مقبول ڈرامے ‘حبس’ سے اداکاری کا آغاز کرنے والی جینس ٹیسا نے انکشاف کیا ہے کہ شوبز انڈسٹری میں انہیں ان کی رنگت پر ٹوکا گیا اور انہیں مشورہ دیا گیا کہ اگر انہیں ڈراموں میں مرکزی کردار چاہئیے تو انہیں اپنی رنگت گوری کرنی پڑے گی۔
جینس ٹیسا نے حال ہی میں ‘فیوچیا میگزین’ کو انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے اپنی نجی زندگی سمیت شوبز میں انٹری سے متعلق کھل کر باتیں کیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی پیدائش پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہوئی اور وہیں انہوں نے تعلیم حاصل کی، انہوں نے میڈیا کمیونی کیشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
ان کے مطابق وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں اور ان کے دادا اور دادی سمیت بڑے بھائی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں رہتے ہیں اور شوبز میں انٹری دینے کے بعد وہ بھی لاہور سے کراچی آ گئی ہیں۔
جینس ٹیسا کے مطابق والدین نے پہلے انہیں بزنس کی تعلیم میں داخلہ دلوایا تھا مگر انہیں وہ تعلیم سمجھ ہی نہیں آئی۔
ان کے مطابق جب پاکستان میں مکمل طور پر ٹک ٹاک کو استعمال ہی نہیں کیا جاتا تھا، تب سے وہ اسے استعمال کر رہی تھیں اور زمانہ طالب علمی میں بھی وہ ٹک ٹاک ویڈیوز بناتی رہیں اور دوران تعلیم ہی انہوں نے ایک ادارے میں ڈیجیٹل میڈیا مینیجر کی ملازمت اختیار کرلی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ دوران تعلیم ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے وقت ہی انہیں احساس ہوگیا تھا اور انہوں نے طے کرلیا تھا کہ انہیں اداکارہ بننا ہے اور پھر اسی منصوبے کے تحت ہی انہوں نے مختلف پروڈکشن ہاؤسز میں آڈیشن دیے۔
جینس ٹیسا کے مطابق اتفاق سے وہ لاہور سے کراچی آئی ہوئی تھیں کہ انہیں ایک پروڈکشن ہاؤس سے فون آیا، جس میں انہیں بتایا گیا کہ وہ ‘حبس’ ڈراما کے لیے منتخب ہوئی ہیں مگر انہیں دوبارہ آڈیشن دینا پڑے گا۔
ان کے مطابق اداکاری کا پہلا چانس ملنے پر وہ خوشی سے نہال ہوگئیں مگر انہوں نے خود پر قابو پاکر کسی چیز کا اظہار ہی نہیں کیا مگر وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھیں۔
انہوں نے ‘حبس’ کی پوری ٹیم کی تعریفیں کیں اور بتایا کہ انڈسٹری میں پہلا کام کرنے کی وجہ سے لوگوں نے ان کی بہت مدد کی اور انہیں خوشی ہے کہ ڈرامے میں ان کے کردار ‘زویا’ کی تعریفیں کی جا رہی ہیں۔
اداکارہ نے جہاں ‘زویا’ کے کردار کی تعریفیں ہونے پر خوشی کا اظہار کیا، وہیں انہوں نے اس بات پر شکوہ بھی کیا کہ انہیں ان کی رنگت کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق دیکھنے والے لوگ ان کی اداکاری کے بجائے ان کی رنگت پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ہر کوئی سوشل میڈیا پر کمنٹس کرتا رہتا ہے کہ ‘اس کالی’ کو نکالیں۔
جینس ٹیسا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگوں نے ان کا نام ہی ‘کالی’ رکھ دیا جو کہ تضحیک آمیز ہے۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ انہیں ایک بڑے اشتہار کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا مگر عین وقت پر انہیں صرف ان کی رنگت کی وجہ سے مسترد کردیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ سانولی لڑکی کو اشتہار میں نہیں لے سکتے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اشتہارات بنانے والی کمپنیوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہر چیز کو سانولی یا کالی رنگت کی خواتین یا مرد بھی استعمال کرتے ہیں؟
جینس ٹیسا کے مطابق انہیں نہ صرف رنگت کی وجہ سے اشتہار نہ دیا گیا بلکہ انڈسٹری کے بہت سارے لوگ انہیں یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ اپنی رنگت گوری کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا جاتا رہا ہے کہ اگر انہیں مرکزی کردار چاہئیے تو انہیں اپنی رنگت گوری کرنی پڑے گی؟
ان کے مطابق پاکستانی شوبز انڈسٹری کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹی وی دیکھنے والے شائقین اور خصوصی طور پر خواتین سانولی رنگت کے بجائے گوری چٹی لڑکیوں کو دیکھنے میں ترجیح دیتی ہیں اور اسی وجہ سے ہی انڈسٹری میں گوری رنگت والی خواتین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
انہوں نے رنگت کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ تفریق روا رکھے جانے کے معاملے پر اظہار افسوس بھی کیا۔