عالمی منڈی میں ڈالر بلند ترین سطح پر، ملک میں روپے کی قدر میں کمی
تین روز مسلسل بہتری کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں صبح کی تجارت کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 1.1 روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق دوپہر پونے 12 بجے مقامی کرنسی 219.7 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ ہو رہی تھی۔
مزید پڑھیں: عالمی مارکیٹ میں ڈالر 2 دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کے انڈیکس میں اضافہ اور اس کی مضبوطی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں ہے، آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا، یہ اضافہ 219 روپے سے 222 روپے فی ڈالر کی حد میں رہے گا، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
رائٹرز نے آج کے اوائل میں رپورٹ کیا کہ ڈالر لگاتار تیسرے ہفتہ وار اضافے کی طرف بڑھ رہا تھا اور یورو اور ین کے مقابلے دہائیوں میں اپنی بلند ترین سطح کے قریب کھڑا تھا۔
ڈالر انڈیکس نے راتوں رات دو دہائیوں کی بلند ترین سطح تک رسائی حاصل کی اور 109.51 سے 109.99 پر پہنچ گیا، امریکی فیڈرل ریزرو کے چیئر جیروم پاول نے کہا کہ افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود کچھ عرصے کے لیے بلند رکھنا ہوگی۔
دریں اثنا ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی درآمدی بل پر دباؤ اور افغانستان کو اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ سے ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب نے انفرااسٹرکچر، مکانات، کارخانوں اور فصلوں کو تباہ اور مویشیوں کو ہلاک کر دیا ہے، اس کے نتیجے میں حکومت نے سیلاب متاثرین کے لیے موصول ہونے والی اشیا پر ڈیوٹی ختم کردی ہے، اس کے علاوہ ملک نے غذائی قلت کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر سبزیوں کی درآمد شروع کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے
ظفر پراچا نے کہا کہ حکومت کی جانب سے غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی کے خاتمے سمیت یہ تمام عوامل درآمدی بل کو متاثر کریں گے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کے باوجود اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے، ہمیں ایران اور افغانستان کی سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر کرنسی کی اسمگلنگ کو روکنا ہوگا، انہوں نے مشورہ دیا کہ ایجنسیوں کو چاہیے کہ وہ کرنسی اسمگل کرنے والے کو پکڑنے والوں کے لیے 50 فیصد انعام کا اعلان کریں، چیزیں قابو میں آجائیں گی۔
ظفر پراچا نے کہا کہ جن اشیا پر حکومت نے بھاری ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی تھی ان کی اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے زرمبادلہ اور محصولات کو 'کھا' رہا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کسٹمز کی جانب سے شیئر کیے گئے عارضی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگست میں درآمدی بل 13.5 فیصد کم ہو کر 5.7 ارب ڈالر رہ گیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 6.59 ارب ڈالر تھا۔
جولائی میں درآمدات 12.81 فیصد کم ہو کر 4.86 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 5.57 ارب ڈالر تھیں۔
مزید پڑھیں: حکومت نے پیاز اور ٹماٹر کی درآمدات پر 31 دسمبر تک ٹیکس ختم کردیا
ماہانہ بنیادوں پر درآمدی بل میں 17.28 فیصد اضافہ ہوا۔
واضح رہے یکہ 28 جولائی کو روپیہ 239.94 کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، اس کے بعد مسلسل 11 سیشنز تک روپے کی قدر میں اضافہ ہوا اور 16 اگست کو انٹربینک میں 213.90 روپے پر بند ہوا۔
تاہم، مقامی کرنسی میں 17 اگست سے دوبارہ گراوٹ کا رجحان دیکھا گیا اور 29 اگست تک 8.02 روپے کمی واقع ہوئی، گزشتہ تین سیشنز کے دوران روپے کی قدر میں پھر اضافہ ہوا اور روپے کی قدر میں گراوٹ سے قبل تین دن لگاتار ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔