ایران-امریکا ڈیل کیا ہمارے گھاٹے پورے کرے گی؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِاعظم یائیر لاپید سے فون پر گفتگو کی ہے۔ ان سے عالمی اور خطے کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔ ایرانی خطرے پر بھی دونوں رہنماؤں کی بات چیت ہوئی۔ جو بائیڈن نے اس موقع پر امریکی یقین دہانی کا اعادہ کیا کہ امریکا کبھی بھی ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا، اور وائٹ ہاؤس نے اس پر بیان بھی جاری کیا ہے۔
امریکا سے ایران کی ڈیل اب دنوں کی بات دکھائی دے رہی ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں تو وہ اسرائیلی واویلا دیکھ لے۔ اسرائیل کے سابق اور حاضر انٹیلی جنس چیف میڈیا پر مسلسل بیانات دے رہے ہیں۔ وہ اسرائیلیوں کو تسلی بھی دے رہے ہیں اور افسوس کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ یہ ڈیل ہو رہی ہے۔ ساتھ وہ اپنی صلاحیت کا بھی بتا رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے ہر قیمت پر روکیں گے۔
اسرائیلی میڈیا یہ بھی رپورٹ کررہا ہے کہ ایران کے اندر کب کب اسرائیل نے کارروائی کی، اسے روکے رکھا اور آئندہ بھی روکے گا۔ سابق اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو کا ایک ویڈیو بیان بھی چل رہا ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ پورا مشرق وسطی اس پر ہمارے مؤقف کا حامی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ’یہ ایک ایسی ڈیل ہونے جا رہی ہے جس کے اثرات بالکل الٹ نکلیں گے۔ یہ ایران کو ایٹمی ہونے سے روکنے نکلے تھے، مگر جو کچھ یہ کرنے جارہے اس کے بعد صرف ایران ہی نہیں کچھ اور ملک بھی ایٹمی ہوجائیں گے‘۔
ان کا اشارہ عرب ملکوں بلکہ سیدھی بات کریں تو سعودی عرب کی طرف تھا۔
بات کیونکہ بہت ہی سنجیدہ ہو رہی ہے تو یہاں لمبا سانس لے کر ایک گیت گا لیتے ہیں۔ نام میرا بھی تیرے نام کے ساتھ آئے گا اور وہ بھی کہ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا۔ جدھر سعودی اُدھر ہی پاکستانی۔ لیکن بطور ایٹمی ملک اب ہمیں ان باتوں کا عادی ہوجانا چاہیے۔ ہم نے اب تک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہونے کا ہی ثبوت دیا ہے۔
اسرائیل نے ہر طرح سے امریکا پر دباؤ ڈالا ہے جس کا نتیجہ بائیڈن اور لاپید کی ٹیلی فون کال کی صورت نکلا ہے جس میں امریکی صدر نے یقین دہانی کرا دی ہے کہ ایران کو ایٹمی ملک نہیں بننے دیا جائے گا اور اسرائیلی وزیرِاعظم کو تسلی بھی ہوگئی ہے شاید۔ لاپید کا کہنا تھا ’یہ ڈیل تب ہی اچھی ہوگی اگر امریکا خلاف ورزی کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دے‘۔
یہ ڈیل ہے کیا اس حوالے سے ہارٹز نے ایک تفصیلی رپورٹ کی ہے، جس کے مطابق 4 مراحل سے گزر کر ڈیل پر حتمی عمل شروع ہوگا اور اس میں 165 دن لگیں گے۔ پہلے دن کو ڈے زیرو لکھا گیا ہے، اس دن ایران امریکی قیدی رہا کرے گا۔ بدلے میں ایران کے پیسے جو مختلف ملکوں میں فریز ہیں وہ ریلیز کیے جائیں گے۔ ایران ایٹمی پیشرفت سے متعلق اپنی تمام خلاف ورزیوں کو روک دے گا لیکن جو اس نے یورینیم افزودگی کی ہے وہ اپنے پاس ہی رکھے گا۔
ڈے زیرو سے 5 دن کے اندر امریکا اس ڈیل کو کانگریس میں پیش کرے گا۔ کانگریس کو جائزے کے لیے 30 دن دیے جائیں گے۔ اس دوران امریکا ایران سے پابندی نہیں ہٹائے گا۔ یہ دوسرا مرحلہ ہوگا۔
کانگریس سے منظوری کے 60 دن بعد امریکا اقوامِ متحدہ میں اپنے نمائندے کے ذریعے اطلاع دے گا۔ جس میں وہ اقوامِ متحدہ اور عالمی ایٹمی انرجی ایجنسی کو یہ اطلاع دے گا کہ وہ ڈیل پر واپس آچکا ہے۔
اس کے 60 دن بعد امریکا اور ایران ایک مشترکہ بیان جاری کریں گے۔ امریکا ایرانی کمپنیوں سے اضافی پابندیاں ہٹائے گا اور یہ چوتھا مرحلہ ہوگا۔
ڈے زیرو سے 165 دن بعد امریکا ایران سے تمام پابندیاں ہٹا دے گا۔ اس کے ساتھ تجارت کی اجازت دے دے گا۔ ایران نے یورینیم افزودگی کے لیے جو سرپلس انفرااسٹرکچر لگایا ہوگا وہ ہٹا دے گا اور یوں معاہدے پر عملدرآمد مکمل طور پر شروع ہوجائے گا۔
اسرائیل کی پریشانی تو جو بائیڈن نے کسی نہ کسی طرح قابو کرلی، لیکن اب امریکی کانگریس امریکی انتظامیہ کے ساتھ جو کرے گی اس ڈیل پر وہ دنیا دیکھے گی۔ اس حوالے سے پولیٹیکو یورپ میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ جو بتاتی ہے کہ ایران سے پابندیاں ہٹنے پر روس کیا فائدے لے گا۔ اس سال دسمبر میں یورپ روس سے تیل خریدنا بند کردے گا۔
اب یہ متبادل تیل کسی کو تو فراہم کرنا ہے، اس لیے ایران سے ڈیل کرنے کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ روس جائے تو ایران آئے۔ اس جانب پولیٹیکو نے دھیان ڈلوایا ہے۔ روسی صدر نے حال ہی میں ایران کا دورہ کیا ہے۔ ایرانی سینٹرل بینک کے اعلی عہدیدار اور انرجی فنانس کے 2 وفود روس جاچکے ہیں۔ روس ایران سے یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کی جتنی پیداوار ہے ساری مارکیٹ میں بیچ دو۔ اپنی ضرورت کا تیل ہم سے لے لو۔ اس کے پیسے ہمیں دے دینا۔ آپ کا کام بھی بنے گا، ہمارا بھی اور دنیا کا بھی ہوجائے گا۔
روس بالواسطہ امریکی اور یورپی پابندیوں والے کاغذات سے بتی معذرت دیا جلا کر دکھانے کا پروگرام بنا کر بیٹھا ہے۔ پولیٹیکو کی یہی رپورٹ ایرانی فنکاریاں بتاتی ہے کہ کیسے وہ پابندیوں کے ساتھ رہنا اور ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے اپنا کام نکالنا سیکھ گئے ہیں۔
آپ پڑھتے ہوئے یہاں تک آگئے ہیں تو اب پھر پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے کچھ دن پہلے ایران کی نیوز ایجنسی ارنا کو ایک انٹرویو دیا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران سے گیس اور تیل کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ مقامی کرنسی میں اگر ہم ادائیگی کریں تو 50 کروڑ ڈالر یا یورو تک ٹریڈ فوری بڑھا سکتے ہیں۔
50 کروڑ ڈالر کافی کم لگتے ہیں۔ اتنے کا تو ہم کسی پر الزام لگا دیتے ہیں آرام سے۔ شروعات چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے ہی ہوتی ہے۔ ہم اپنی انرجی کی ساری ضرورت ظاہر ہے ایران سے پوری نہیں کریں گے۔ اتنی ہی کریں گے جس سے ہم پر ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوجائے اور روپیہ ڈالر کے مقابلے پر جان پکڑ لے۔
اگر آپ کو سمجھ نہیں آئی تو بس اتنا سمجھیں کہ ڈالر اتنا ڈالر نہیں رہے گا ہمارے لیے۔ اگر سمجھ آگئی ہے تو شور مچا کر ایف اے ٹی ایف میں نہ پھنسا لینا لوگو۔
ویسے ہی چلتے چلتے بتاتے چلیں کہ افغانستان کا روس کے ساتھ تیل خریداری کا معاہدہ آخری مراحل میں ہے۔ اس سے بھی پہلے کابل میں افغان سرمایہ داروں کا وہاں کے اہم حکام سے اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ساری توجہ اسی پر رہی کہ توانائی کے معیارات بنائے جائیں اور اسے عالمی معیار کے مطابق کیا جائے۔ توانائی کہاں سے آسکتی اور کدھر بھجوائی جا سکتی۔ یہ 2 خبریں آپ خود ہی ڈھونڈیں اور پڑھیں، بہت کچھ سمجھیں گے۔
ہماری پریشانی معاشی سے زیادہ سیاسی ہے۔ اگر ہم ذرا سیاسی درجہ حرارت کم کریں، اتحاد کے ساتھ آگے بڑھیں اور سفارتکاری میں توازن برقرار رکھ سکیں تو ہمارے لیے اردگرد امکانات کے جہاں پیدا ہو رہے ہیں۔