امریکی تربیت یافتہ افغان پائلٹ طالبان کا اثاثہ بن گیا
افغانستان میں طالبان کے قابض ہونے سے قبل امریکی تربیت یافتہ افغان پائلٹ محمد ادریس مومند آج طالبان کے زیرانتظام افغانستان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق افغانستان میں جنگ کے دوران امریکا نے چند افغان فوجی پائلٹوں کو منتخب کیا اور انہیں جدید ترین جہاز اڑانے کی تربیت دی اور طالبان کو نشانہ بنایا، محمد ادریس مومند اسی گروپ کا حصہ تھے۔
لیکن جب کابل پر طالبان کا قبضہ قریب تھا تو محمد ادریس مومند نے افغان فوج کو چھوڑ دیا اور اپنا ہیلی کاپٹر طالبان کے حوالے کرنے کے لیے اسے اڑا لے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے شہریوں کا انخلا جاری
گذشتہ سال افغان طالبان کی ایک ٹوئٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ ’ادریس مومند ایک افغان پائلٹ ہیں، کابل کی آزادی کے بعد وہ امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اپنے ساتھ صوبہ کنڑ میں ایک محفوظ مقام پر لے گئے تھے اور اب وہ ہیلی کاپٹر طالبان کو واپس کر دیا گیا ہے‘۔
محمد ادریس مومند نے بی بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ لوگ شاید مجھ سے خوش نہ ہوں لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ ملک ماں کی طرح ہے اور کسی کو اس سے غداری نہیں کرنی چاہیے، میرا مقصد افغانستان کے اثاثے کی حفاظت کرنا ہے‘۔
انہوں نے 2009 میں افغان فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور امریکن ملٹری اکیڈمی میں 4 سالہ تربیت کے لیے امریکا گئے تھے۔
مزید پڑھیں: طالبان کا قبضہ: افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور اب آگے کیا ہونے جارہا ہے؟
بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جب انہیں تربیت کے لیے منتخب کیا گیا تو وہ بہت خوش اور پرجوش تھے‘۔
تربیت مکمل ہونے کے بعد انہوں نے ابتدائی طور پر روسی ساختہ ایم آئی-17 ہیلی کاپٹر اڑایا، تاہم 2018 میں وہ پائلٹوں کے اس گروپ کا حصہ تھے جسے امریکی ساختہ بلیک ہاک اڑانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
’میرا کمانڈر مجھے ملک سے غداری پر مجبور کر رہا تھا‘
محمد ادریس مومند نے 14 اگست کے واقعات کو یاد کیا جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ ’حالات کشیدہ تھے کیونکہ طالبان کابل کے نزدیک تھے‘۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کابل کا ہوائی اڈہ امریکی فوج کے کنٹرول میں تھا اور فضائیہ کے کمانڈر نے تمام پائلٹس کو ازبکستان جانے کا حکم دیا تھا، ہدایات پر نالاں محمد ادریس مومند نے ان پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا کمانڈر مجھے اپنے ملک سے غداری کرنے پر مجبور کر رہا تھا، میں ایسا حکم کیوں مانتا؟‘
مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے 85 فیصد حصے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ
محمد ادریس مومند نے کہا کہ ’اپنے والد سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے ہیلی کاپٹر کا رخ ازبکستان نہیں بلکہ کنڑ صوبے میں اپنے گاؤں کی جانب کرلیا جو پہلے ہی طالبان کے کنٹرول میں تھا‘۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ یہ کوشش اتنی سادہ نہیں تھی، اسے پہلے عملے کو چکمہ دینا پڑا کیونکہ انہیں ان پر کوئی بھروسہ نہیں تھا، ایک 4 رکنی عملہ ہر بلیک ہاک کے لیے لازمی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہر بلیک ہاک میں 4 رکنی عملہ ہوتا ہے، میں جانتا تھا کہ میں اپنے منصوبے کے حوالے سے ان پر بھروسہ نہیں کر سکتا، مجھے یقین تھا کہ وہ نہیں مانیں گے، وہ میری جان کو خطرے میں ڈال دیتے اور ہیلی کاپٹر کو بھی تباہ کر دیتے‘۔