نقطہ نظر

اجتماعی زیادتی کا شکار بچی جسے تعلیم سے بھی محروم کردیا گیا

اسکول انتظامیہ نے اس کے والدین سے کہہ دیا کہ وہ بچی کو اسکول میں نہیں بٹھاسکتے کیونکہ دیگر بچوں کے والدین ان پر دباو ڈال رہے ہیں۔

کراچی کی رہائشی صائمہ [نام تبدیل کیا گیا ہے] 8ویں کلاس کی طالبہ ہے۔ 12 سے 13 سالہ بچی کو پچھلے سال جنوری میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 4 کم عمر ملزمان صائمہ کو دھمکا کر منہ بند رکھنے کا کہتے ہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ گھر واپس آتی ہے اور ایک ہفتہ بخار میں مبتلا رہنے کے بعد نارمل ہونے کی کوشش شروع کردیتی ہے۔ یعنی یہ کہانی ایک ریپ سروائیور کی ہے۔

وہ پہلے ہی گھر سے باہر نہیں جا رہی تھی کیونکہ اسکول کورونا وبا کی وجہ سے بند تھے۔ صائمہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس دوران صائمہ کے والد نے کئی بار کہا کہ صائمہ چپ چپ ہے۔ اس سے پوچھو کہ کیا ہوا ہے؟ لیکن وہ اسے اس کی بیماری سمجھیں۔ بات کی بھی تواس نے ٹال دیا۔

اس سارے واقعے کا ہولناک پہلو یہ تھا کہ 3 ماہ بعد اس کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو واٹس ایپ پر وائرل کردی جاتی ہے۔ صائمہ کے والد جاوید صاحب کو اہلِ محلہ سے پتا چلتا ہے کہ واٹس ایپ پر چلنے والی ویڈیو ان کی بیٹی کی ہے۔ والد جب صائمہ سے پوچھتے ہیں تو وہ بتاتی ہے کہ اس پر کیا کچھ بیت گیا۔ اب اس حادثے کو ایک سال سے زیادہ ہوچکا ہے۔ صائمہ کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے مگر ملزمان ضمانت پر رہا ہیں۔ یہاں والد کا نام ان کے بہت اسرار پر شامل کیا گیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ طاقتور ملزمان کا ٹولہ جان لے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

صائمہ اور اس کا متاثرہ خاندان

کراچی کے مضافاتی گوٹھ کے رہائشی اس خاندان سے جب میں نے ملاقات کی توابتدا میں محسوس ہوا کہ صائمہ کے والدین صبر کرچکے ہیں۔ لیکن جاوید صاحب ایک ہی بات کرتے تھے کہ وہ دباؤ میں نہیں آئیں گے اور کوئی صلح نامہ نہیں کریں گے۔ ان کی بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور صائمہ اور ان کا خاندان ملزمان کو معاف نہیں کرے گا۔

صائمہ کے والد ایک پرائمری اسکول میں استاد ہیں جبکہ والدہ کورونا سے پہلے پولیو ورکر تھیں اور وہ ایک مقامی این جی او سے بھی منسلک رہی ہیں۔ غرض کے معاشی اور سماجی طور پر کمزور والدین نے ہمت کرکے فیصلہ کیا کہ وہ پولیس سے رجوع کریں گے تاکہ ملزمان کو گرفت میں لاکر سخت سزا دلوائی جاسکے۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں اس خاندان پر کیا کچھ بیت گیا اس کی ایک لمبی داستان ہے۔ صائمہ کے والد بتاتے ہیں کہ صرف رپورٹ درج کروانے میں ہی 3 دن لگ گئے لیکن وہ اپنی بیٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرچکے تھے لہٰذا انہوں نے شواہد جمع کرکے پولیس کو دیے اور کہا کہ ان کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ پولیس نے حسبِ معمول ٹال مٹول سے کام لیا کیونکہ اجتماعی زیادتی کرنے والے لڑکوں کا خاندان سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط ہے۔

مقدمہ واپس لینے کا دباؤ

جاوید صاحب اپنی داستان کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ ہماری پولیس ایک ہی سوچ رکھتی ہے۔ ہم نے 3 دن علاقے کے تھانے کے چکر لگائے، ٹھوس ثبوت دیے، پھر جیسے تیسے مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن کہ ان پر ہر قسم کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مقدمے سے دستبردار ہوجائیں۔

کراچی کے جس گوٹھ کا یہ واقعہ ہے وہاں وڈیرہ سسٹم آج بھی رائج ہے۔ جاوید صاحب مزید بتاتے ہیں کہ پہلے پہل محلے کے بڑے یا وڈیرے نے ان پر دباؤ ڈالا کہ بیٹھ کر بات کریں کیونکہ ملزمان بھی انہی کی برادری کے ہیں اور بات تھانہ کچہری تک نہیں جائے، آخر کو بیٹی کا معاملہ ہے۔

صائمہ کے چچا نے بتایا کہ سب بڑے چاہتے تھے کہ ہم پولیس تک نہ جائیں اور کچھ بیچ بچاؤ کروا لیا جائے۔ اہلِ محلہ کا بھی کہنا تھا کہ بیٹھ جائیں۔ اس سارے سماجی دباؤ نے مجبور کردیا کہ وہ ملزمان کے خاندان سے ایک بار بیٹھ کر بات کریں۔

جاوید صاحب کہتے ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ برادری کے بڑے ان کا ساتھ دیں گے کیونکہ کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا تھا۔ لیکن جب انہیں لگا کہ انہیں دباؤ میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے تو انہوں نے برادری کے بڑوں کی بات نہیں مانی۔ انہوں نے نہایت افسوس سے کہا کہ جب سامنے والی پارٹی کو بتا دیا کہ وہ ایسا نہیں چاہتے تو انہیں اور صائمہ کو ایک گھر میں یرغمال بنا کر کئی گھنٹے حبس بیجا میں رکھا گیا۔ یہی نہیں بلکہ دو بار ان کے بھائیوں کواغوا کیا گیا۔ بھائی کا طے شدہ نکاح ختم کروا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دہشت زدہ صائمہ نے عدالت میں ملزمان کو پہچاننے سے بھی انکار کردیا، جس کی بنیاد پر ملزمان کو ضمانت دے دی گئی۔ اس کا افسوس جاوید صاحب کے خاندان کو آج تک ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس ملاقات کے بعد محلے بھر میں مشہور کردیا گیا کہ ہم نے نہ صرف ایک کروڑ روپے لے کر مقدمہ واپس لینے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے بلکہ ہم نے پیسے لے بھی لیے ہیں۔ ہم سے لوگ آکر پوچھتے تھے کہ کیا آپ نے پیسے لے لیے؟

لیکن ان ساری مشکلات نے صائمہ کے والدین کو مزید مضبوط کردیا۔ انہوں نے ہر مصیبت کو مقدمے کا حصہ سمجھ لیا۔ وہ اپنے ابتدائی فیصلے پر ڈٹے رہے کہ وہ مقدمہ واپس نہیں لیں گے۔

ملزمان اور علاقے کے بڑے چاہتے ہیں کہ صائمہ کا خاندان ان کے خلاف نہ کھڑا ہو۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ محلے میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ کچھ اور بچیوں کے ساتھ بھی یہ ظلم کیا گیا لیکن وہ لوگ خاموش رہے۔ میں اپنی بچی کا مقدمہ لڑوں گا کیونکہ وہ ریپ سروائیور ہے۔ ابھی اس کی زندگی پڑی ہے، اسے مقابلہ کرنا ہے۔ میں لڑوں گا اور سمجھوتا نہیں کروں گا۔ مجھے خود بھی مضبوط رہنا ہے اور اپنی بچی کو بھی مضبوط کرنا ہے۔ انہوں نے کمرے کی دیوار کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ صائمہ کو سمجھا دیا ہے کہ تمہیں تعلیم حاصل کرکے کچھ بننا ہے۔

صائمہ کا تعلیمی سلسلہ روکنے کی کوشش

مجھے صائمہ کی خبر مقامی صحافی سامی میمن سے ملی کہ ایک بچی جو اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی اب اس کا تعلیمی سلسلہ بھی روکا جارہا ہے۔ سامی نے ڈان کو بتایا کہ علاقے میں خواتین کے ساتھ بہت سے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ گھریلو جھگڑوں میں خواتین خود کو آگ لگا لیتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کھانا پکاتے ہوئے جل گئیں۔ اسی طرح اب اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ صائمہ کے کیس میں بھی ملزمان بااثر لوگ ہیں لہٰذا وہ پورا زور ڈال رہے ہیں کہ صلح نامے پر دستخط ہوجائیں۔ بچی کو انصاف ملنے کی بات تو ابھی خام خیال ہے بلکہ خاندان کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ بچی کو محلے کے متعدد اسکولوں نے داخلہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ بچی کو انصاف ملے گا جو پاکستانی قانون کی رو سے ہر شہری کا حق ہے۔

اس خبر کی تصدیق اور اس پر کام کرنے کے لیے ہم صائمہ کے گھر پہنچے، ہماری ساری گفتگو میں والدین اور چچا شامل رہے۔ لیکن جاتے جاتے ہم صائمہ سے ایک ملاقات چاہتے تھے۔ چھوٹی سی سہمی ہوئی بچی صائمہ نے بتایا کہ وہ پڑھنا چاہتی ہے اور اسے ڈاکٹر بننا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی پچھلے رپورٹ کارڈ دکھائے جس میں واضح تھا کہ گزشتہ جماعتوں میں وہ اچھے گریڈ کے ساتھ پاس ہوتی رہی ہے۔

اس کے ساتھ زیادتی در زیادتی یہ ہوئی کہ اسکول انتظامیہ نے اس کے والدین سے کہہ دیا کہ وہ بچی کو اسکول میں نہیں بٹھاسکتے کیونکہ دیگر بچوں کے والدین ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ صائمہ کا تعلیمی سفر ان کے ابتدائی اسکول نے ہی نہیں روکا بلکہ دوسرے اسکول کی انتظامیہ کا بھی یہی رویہ رہا۔ انہیں نویں جماعت میں داخلہ ٹیسٹ میں بٹھانے کی بات کی لیکن بعد میں منع کردیا کہ ان کے ہاں اب نئے داخلے کی گنجائش نہیں رہی۔ تاہم صائمہ اور ان کے خاندان نے ہمت نہیں ہاری۔ اب صائمہ اپنے والد کے ساتھ نئے سرکاری اسکول میں جارہی ہے جو جاوید صاحب کے اسکول کے پاس ہے۔ لیکن گھر سے دُور ہے۔ پچھلا اسکول اگلی گلی میں ہی تھا اور وہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ جاتی تھی۔ جاوید صاحب چاہتے تھے وہ اسی اسکول میں جائے لیکن اب محلے کا کوئی اسکول صائمہ کو داخلہ دینے پر تیار نہیں۔

اس حوالے سے نجی اسکول کا مؤقف

اسکول انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ انہوں نے صائمہ کو اسکول سے نہیں نکالا بلکہ دوسرے والدین کی طرف سے اسکول پر زور ڈالا گیا کہ صائمہ کا داخلہ منسوخ کیا جائے۔ 8ویں جماعت کی طالبات کے والدین کا کہنا تھا کہ صائمہ ان کی بچیوں کو عجیب عجیب باتیں بتا رہی ہے جس سے ان کے بچے بگڑسکتے ہیں، صائمہ کو اسکول سے نکالا جائے ورنہ وہ اپنے بچوں کو کسی اور اسکول منتقل کردیں گے۔

اسکول کے پرنسپل قاسم قاسمانی کا کہنا ہے کہ والدین کے زور دینے پر اسکول انتظامیہ نے صائمہ کے والدین کو اسکول بلاکر مسئلہ بیان کردیا کہ وہ صائمہ کو 8ویں جماعت کا مزید حصہ نہیں بنا سکتے۔ قاسم صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچی کا 2 ماہ بعد امتحان لیا ہے۔ ہاں بچی اسکول نہیں آئی اور انہوں نے اسے اسکول سرٹیفیکٹ میں ‘اچھے کردار’ کی مالک لڑکی لکھا ہے۔

پریشان حال صائمہ کے والد جاوید کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسکول انتظامیہ سے کہا کہ یہ اسکول گھر سے قریب ہے۔ صائمہ سمیت ان کے سب بچے اسی اسکول میں زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ وہ چاہیں گے صائمہ اسی اسکول میں تعلیم جاری رکھے کیونکہ کسی اور اسکول جاتے ہوئے وہ خود کو زیادہ غیرمحفوظ سمجھے گی اور وہ خود بھی پریشان رہیں گے۔

لیکن جب اسکول انتظامیہ نہیں مانی تو جاوید صاحب نے ایک حل یہ نکالا کہ اسکول 2 ماہ انتظار کرلے۔ 2 ماہ بعد سالانہ امتحانات ہیں، وہ 8ویں جماعت پوری کرلے تو وہ بچی کو کسی اور اسکول میں داخل کروا دیں گے۔ اس دوران صائمہ گھر بیٹھ کر امتحانات کی تیاری کرلے گی اور سالانہ امتحانات بھی دے گی۔ اسکول اس کے بعد اسے رپورٹ کارڈ اور سرٹیفیکیٹ جاری کردے جس کی بنیاد پر وہ دوسرے اسکول میں اس کا داخلہ کروانے کی کوشش کریں گے۔

ماہرِ تعلیم کیا کہتے ہیں؟

ماہرِ تعلیم ارم حفیظ کا کہنا ہے کہ ‘میں سمجھتی ہوں کہ اس سے بڑا کوئی اور ظلم نہیں ہوسکتا کہ بچی جو پہلے ہی اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہو اس کا تعلیمی سلسلہ روک دیا جائے۔ اس موقع پر تمام سماجی ادارے چاہے وہ خاندان ہو، محلہ ہو یا مذہبی ادارے سب کو مل کر بچی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک غلط روایت پڑگئی ہے کہ ہم ریپ کا شکار ہونے والے مظلوم کو ہی دباتے ہیں۔ یہی کہا جاتا ہے کہ اس کا لباس درست نہیں، اس کے ہی تعلقات ہوں گے یا اس نے ہی ریپسٹ کو بلایا ہوگا۔ ان ساری باتوں سے متاثرہ افراد مزید تکلیف میں چلے جاتے ہیں۔ اکثر لڑکے پھر وہی کچھ کرنے لگتے ہیں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا۔ لڑکیاں اور خواتین خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ ہم انہیں اس تکلیف دہ یاد سے نکلنے ہی نہیں دیتے’۔

ارم نے زور دیا کہ اس سارے مرحلے میں تعلیمی اداروں کا اہم کردار ہے کیونکہ ان اداروں کا کام صرف کتابیں پڑھانا نہیں بلکہ تربیت کرنا بھی ہے۔ انسان کی ظاہری شخصیت کے ساتھ ساتھ جذباتی، ذہنی اور عقلی سطح کو بلند کرنا گھر اور اسکول کا کام ہے۔ لہٰذا اسکول کو چاہیے تھا کہ صائمہ کو سہولت فراہم کرے۔ ارم سمجھتی ہیں کہ اسکول میں کاؤنسلر یا ماہرِ نفسیات لازمی ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بھی مشترکہ خاندانی نظام نہیں رہا جس سے بہت سی ذہنی الجھنیں دُور ہوجاتی تھیں اور جذباتی مدد گھر میں ہی مل جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں۔ اس لیے بچوں کی ذہنی الجھنوں کو دُور کرنا بھی اسکول کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ ہمارے بہت سے بڑے تعلیمی اداروں میں یہ سہولت نہیں ملتی۔

انسانی حقوق کے ماہرین کیا کہتے ہیں؟

زہرہ یوسف صحافی ہیں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ صائمہ کے کیس سے متعلق کہتی ہیں کہ انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ اس کی تعلیم کسی بھی مرحلے پر روکی نہیں جاسکتی۔ حکومت کو اس مسئلے کو دیکھنا چاہیے۔ بچی جو پہلے ہی اتنے بڑے صدمے سے دوچار رہی ہو اس کا اہم تعلیمی سال ضائع کرنا بلکہ تعلیمی سلسلہ روکنے کی کوشش کرنا بڑا ظلم ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسکول انتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

ویمن ایکشن فورم سے منسلک عظمیٰ نورانی سمجھتی ہیں کہ ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ عورتوں پر تشدد کو اہمیت نہیں دیتا۔ اجتماعی زیادتی ایک بہت گھناؤنا جرم ہے۔ ملزمان کو قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ اگر قانون کا نفاذ نہیں ہوگا تو ہر کوئی جرم کرتا رہے گا۔ انصاف ہوتا رہے اور مجرموں کو سخت سزا ملتی رہے تو ہر مجرم جرم کرنے سے پہلے سوچے گا۔ دوسری طرف ہمارے سامنے کائنات سومرو کی مثال ہے جس میں وڈیرہ خاندان اس کو تنگ کر رہا تھا جس کی وجہ سے پورے خاندان کو کراچی آنا پڑا لیکن ناکافی شواہد کی وجہ سے کائنات کو انصاف نہیں ملا۔ اس لیے مجرم کو سزا ملنا ضروری ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کو اس خاندان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ صلح نامے کا کھیل متاثرہ خاندان کے ساتھ مذاق ہے۔ اگر طاقتور طبقہ جرم کرکے بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا تو معاشرے میں ناانصافی پھیلے گی۔ ناظم جوکھیو کے کیس کو ہی دیکھ لیں۔ سب کو معلوم ہے کہ جرم کس سے ہوا ہے لیکن اس کی بیوہ کو ہی سمجھوتا کرنا پڑا۔ جب ایک بار مقدمہ عدالت کے سامنے پیش ہوجائے تو پھر عدالت کو صلح نامہ قبول ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ حکومت کو براہِ راست اس طرح کے مقدمات کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ کمزور طبقے کو انصاف مل سکے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں کیا چیز اہم ہے؟

انتھروپولوجسٹ ضغیم خان سمجھتے ہیں کہ اگر معاشرے میں مجرم آزاد پھرتا رہے گا تو اس سے بدامنی پھیلے گی۔ اگر ریپسٹ کو ضمانت پر رہا کردیا جاتا ہے تو وہ زیادہ طاقت محسوس کرتا ہے اور اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ پھر وہی کام کرے۔ اس لیے معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ مظلوم کو انصاف ملے، مجرم کو اس کے کیے کی سزا ملے اور قاتون کی پاسداری کی جائے۔

لیگل ایڈ سوسائٹی کی ملیحہ ضیا ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ ‘ریپ کا شکار ہونے والے کسی بھی کردار کو بغیر نہائے میڈیکل ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ سیمپل لے کر بروقت ریپ کرنے والے کی تصدیق کی جاسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متاثرہ فرد کے سب سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کروائے جائیں وہ بچہ ہو یا بچی، لڑکی ہو یا لڑکا غرض کے کوئی بھی، کسی بھی عمر میں۔ ان کے مطابق اگر کوئی لڑکی ریپ کا شکار ہو تو خاتون میڈیکو لیگل ڈاکٹر لازمی ہونی چاہیے۔ اس موقع پر بچی کو سب سے زیادہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے تحفظ کا احساس دینے یا پھر جسمانی اور نفسیاتی مدد کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے ساتھ ساتھ ہمارے پولیس اسٹیشن اور اسپتال کے اہلکاروں کو تربیت دینی ہوگی کہ ریپ کا شکار ہونے والا کردار باآسانی وہاں پہنچ سکے’۔

لیگل ایڈ کی ایک ویڈیو اس حوالے سے کام آسکتی ہے۔

صائمہ کے کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بچی 3 ماہ تک خاموش رہی لہٰذا میڈیکل ٹیسٹ اور شواہد جمع کرنے کا مرحلہ گزر گیا۔ اب ویڈیو جو واٹس ایپ گروپ میں ملزمان کی طرف سے بھیجی گئی وہی بنیادی ثبوت ہے۔ اس میں سب کے چہرے واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

ممتاز گوہر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ریپ سروائیور سے متعلق اعداد و شمار نہیں ہیں۔ جب کوئی خبر میڈیا پر آجاتی ہے تو پھر اس کا خیال رکھ لیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ریپ جیسے سنگین جرائم کی وجوہات تلاش کی جاتی ہیں۔ آج گھر اور خاندان کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ والدین لازمی اپنے بچوں کو آگہی فراہم کریں۔ انہیں بیٹھ کر بتائیں کہ انہیں کہاں کہاں اور کس کس سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح والدین کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس حوالے سے تعلیم دیں۔ یہاں اسکول کی بھی ذمہ داری ہے کہ صائمہ کی کہانی کے ذریعے بچوں کو خطرے سے آگاہ کریں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی عمر اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق بچوں کی تربیت کریں تاکہ بچے جان لیں کہ وہ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ریپ سروائیور اسی لیے سامنے نہیں آتے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ پچھلوں کو انصاف نہیں ملا لہٰذا چپ رہو۔

صائمہ کے وکیل محمد خان شیخ کیا کہتے ہیں؟

ہائی کورٹ کے وکیل محمد خان شیخ کئی برسوں سے زیادتی کے مقدمات کی پیروی کررہے ہیں۔ وہ متاثرہ خاندان کے وکیل ہیں۔ انہوں نے فون پر بتایا کہ 3 ماہ پہلے ان کے پاس یہ کیس آیا ہے۔ مقدے کی تازہ صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ بچی کو انصاف ملے گا۔ ملزمان پیسے والے اور بڑے خاندان کے ضرور ہیں لیکن مقدمہ مضبوط ہے۔ اس لیے ہم مقدمہ جیت جائیں گے۔ صائمہ عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہے جس میں اس نے ملزمان کو پہچان لیا ہے۔

ملزمان کی ضمانت ہوجانے سے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ بچی اور اس کے گھر والوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا تھا اس لیے بچی نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا مگر اب بچی اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہے اور واٹس اپ گروپس میں بھیجی جانے والی ویڈیو کی فرانزک کروالی گئی ہے۔ اب بس مقدمے کے تفتیشی افسر ذوالفقار شر اسے کورٹ میں پیش کریں گے۔ امید کرتے ہیں کہ عدالت بیانات اور ویڈیو کی روشنی میں جلد اپنا فیصلہ سنائے گی جو متاثرہ خاندان کے حق میں ہوگا۔

وکیل صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقدمے میں تعزیراتِ پاکستان کے تحت کئی دفعات لگائی گئی ہیں۔ ان میں دفعہ (2) 376 جس کی رو سے اجتماعی زیادتی کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔ دوسری دفعہ 506 بی ہے جس میں دھمکی اور زد و کوب کرنے کا جرم شامل ہے۔ دفعہ 34 بھی اس مقدمے کا حصہ ہے۔ یہ دفعہ اس وقت لگائی جاتی ہے جب 2 یا 2 سے زیادہ افراد مل کر کسی جرم کا ارتکاب کریں۔ ساتھ ہی مقدمے کے جج نے اس میں انسدادِ دہشتگردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے شامل کروائی ہے کیونکہ اس جرم سے پورے علاقے میں دہشت پھیل گئی تھی۔

قانونی ماہر کیا کہتے ہیں؟

صارم برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے ایڈووکیٹ محمد نواز ڈاہری کہتے ہیں کہ متاثرہ بچی کا لباس، جوتے اور ذاتی اشیا، ڈی این اے اور دیگر شواہد جو مجرم کے خلاف ٹھوس ثبوت بنتے ہیں وہ حاصل نہیں ہوسکے تھے۔ اس کا فائدہ براہِ راست ملزمان کو جاتا ہے۔ اب یہ پولیس کی کوتاہی بھی ہوسکتی ہے۔

محمد نواز ڈاہری کے مطابق ریپ کیسز میں سب سے زیادہ میڈیکو لیگل افسر (ایم ایل او) کی میڈیکل رپورٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن تحقیق کے مطابق ہمارے ہاں صرف 54 فیصد ریپ کیسز میں میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے اور 34 فیصد عدالتی فیصلوں میں لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں ہوا۔ ریپ کیسز میں تفتیشی افسر کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے پہلے مرحلے میں ہی ثبوت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر درست تاریخ اور وقت نہیں لکھا گیا یا کوئی اور نقص رہ گیا تو فائدہ ملزمان کو ہوگا۔

محمد نواز سمجھتے ہیں کہ 12 سے 13 سال کی بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ایک بہت بھیانک جرم ہے۔ ہمارے ہاں جرائم کو چھپایا جاتا ہے جیسے صائمہ نے کیا۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو موزوں جنسی تعلیم دیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی بلاوجہ بلائے تو انہیں کیا کرنا چاہیے اور اگر ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے تو انہیں گھر والوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔

ایک اور اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہوے نواز ڈاہری نے کہا کہ معلوم کرلیں کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں کتنے ایم ایل او ہیں؟ ان میں سے کتنے حاضر سروس ہیں اور کتنی سیٹیں ابھی تک خالی پڑی ہیں؟ آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ ریپ کیسز میں مجرموں کو سزا کیوں نہیں ملتی۔ جب بنیادی ثبوت نہیں ملیں گے تو یاد رکھیں کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ صائمہ کے کیس میں بھی دیکھ لیں کہ جب مقدمہ ہی 3 ماہ بعد کیا جارہا ہو تو بنیادی ثبوت بچے کون سے؟ اچھی بات یہ ہے کہ اب ڈی این اے ٹیسٹ کراچی میں ہونے لگے ہیں۔ ورنہ پہلے نمونے ریل کے ذریعے پنجاب بھیجے جاتے تھے۔ ہمارے ایم ایل او کے پاس ایک پوری کٹ تک نہیں ہوتی کہ وہ ثبوت اکٹھا کریں۔ کبھی انہیں سٹی کورٹ میں پہنچنا ہوتا ہے اور کبھی انہیں ملیر کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔

علاقے کی پولیس کیا کہتی ہے؟

ذوالفقار شر صائمہ کے مقدمے کے تفتیشی افسر ہیں۔ مقدمے کے حوالے سے ان سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ بچی کا بیان ہوچکا ہے اور اب ان کا بیان عدالت میں جمع کروایا جائے گا۔ جس کے بعد ملزمان اپنے اوپر لگائے الزمات کا دفاع کریں گے۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت جلد ہی بچی کے حق میں فیصلہ دے گی۔

اس اہم مسئلے پر ویمن اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سیل ملیر کی ایس آئی کلثوم عباسی سے ادارے کی کارکردگی اور خاص کر صائمہ کے تحفظ اور قانونی مدد کے حوالے سے چند بنیادی سوالات جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود بھیجے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔

کیا یہ سائبر کرائم کیس نہیں تھا؟

اس حوالے سے وکیل احمد شیخ کا کہنا ہے کہ رپورٹ پولیس درج کرتی ہے اور وہی دفعات لگاتی ہے۔ سائبر کرائم کی دفعہ پوليس نے بھی نہیں لگائی اور نہ استغاثہ نے پورنوگرافی کے سیکشن شامل کیے۔ جبکہ براہِ راست یہ سائبر کرائم کا ہی کیس تھا۔

صائمہ کے رہائشی علاقے کے تھانے کے ایس ایچ او محمد عتیق نے بتایا کہ ‘اگر سائبر کرائم کی دفعہ لگائی جاتی تو یہ کیس ایف آئی اے کے پاس جاتا۔ پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ ملزمان پکڑے جائیں اور انہیں سزا ملے۔ تفتیشی افسر نے رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے اور اس کے تحت ہی کیس چل رہا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کیس کا فیصلہ 3 سے 4 ماہ میں آجائے گا اور بچی اور اس کے خاندان کو انصاف ملے گا۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ملزمان بھی کم عمر ہیں جس پر انہیں سزائے موت تو نہیں دی جاسکتی لیکن انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات میں عمر قید کی سزا الگ ہے۔ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ سناتی ہے۔ ملزمان کی سزائیں کیا ہوں گی؟ اس بارے میں بات کرنا قابل از وقت ہوگا’۔

مقدمے کو کسی خاتون تفتیشی افسر نے کیوں نہیں دیکھا؟

اس سوال کے جواب میں ایس ایچ او محمد عتیق کا کہنا تھا کہ کسی مرد کی جانب سے مقدمے کی تفتیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو کوئی ایس آئی یا اے ایس آئی ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ تفتیشی افسر ذوالفقار شر نے مقدمے کی تفتیش بہتر انداز میں کی ہے۔ انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ مقدمے کو دیکھیں کہ کیا 5 ملزمان سے کوئی خاتون پولیس افسر تفتیش کرسکتی تھی؟ اس حوالے سے بچی کے والد کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ ہم تو خود دہشت زدہ تھے۔ ہاں عدالت جاتے ہوئے ایک خاتون پولیس افسر ساتھ ہوتی تھیں، اور وہی صائمہ کے ساتھ کمرہ عدالت میں جاتی تھی۔

صائمہ کے والدین قابلِ تعریف ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسے احساس دلارہے ہیں کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اس نے کچھ غلط نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ غلط ہوا ہے۔ لیکن آج صائمہ اور اس کے خاندان کو ہم سب کی ضرورت ہے۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔