پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کیسے موثر ثابت ہوسکتی ہے؟
پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے بعد فصلوں کی تباہی بالخصوص سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پیاز اور ٹماٹر کی فصلوں کو نقصان پہنچنے کے بعد حکومت نے سبزیوں کی درآمد کے لیے واہگہ کے راستے بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیلابی صورتحال کے بعد مارکیٹ میں سبزیوں کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، بالخصوص خیبر پختونخوا میں ٹماٹر جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیاز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا بھارت کے ساتھ تجارت معطل، سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ
وزارت غذائی تحفظ کے ایک سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ بارشوں سے پہلے سندھ اور بلوچستان میں ٹماٹر اور پیاز کی دوسری فصل کی بویائی شروع ہونے والی تھی تاہم تاخیر کے باعث پہلی کھڑی فصل کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ اپریل اور جون کے درمیان ٹماٹر اور پیاز کی سپلائی پنجاب سے آتی ہے۔
باوثوق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے مقامی مارکیٹ میں کمی کو پورا کرنے کے لیے افغانستان اور ایران سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کی اجازت دے دی تھی۔
ذرائع کے مطابق بھارت سے براہ راست تجارت کی اجازت نہ دینے کی صورت میں مقامی مارکیٹ میں سپلائی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے بھارتی سبزیاں دبئی کے راستے درآمد کی جا سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت کے ساتھ تجارت وقت کی اہم ضرورت ہے، مشیر تجارت
واضح رہے کہ پاکستان نے 9 اگست 2019 کو بھارت سے درآمدات اور برآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم 2 ستمبر 2019 کو بھارت سے دواساز مصنوعات کی درآمد اور برآمد کی اجازت مل گئی تھی۔
اس کے برعکس بھارت، پاکستان کو ادویات براہ راست برآمد کرتا ہے، دوسری جانب بھارت پاکستان سے ہر قسم کی مصنوعات درآمد کررہا ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پچھلے سال کے 66ہزار ڈالر کے مقابلے میں اس سال جولائی اور مارچ 22-2021 کے درمیان بھارتی برآمدات 2ہزار 100 ڈالر رہیں جن میں خام معدنیات، طبی اور سرجیکل آلات شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے ساتھ تجارتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، وزارت تجارت
جولائی سے مارچ 22-2021 کے دوران پاکستان سے بھارت درآمدات کی گئی اشیا کی مالیت 28کروڑ 1لاکھ 33 ہزار ڈالر تھی جو پچھلے سال 23 کروڑ 7لاکھ 26 ہزار ڈالر تھیں، ان درآمدات میں طبی، فارمیسی اور کمیکل مصنوعات شامل تھیں۔
پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کے منفی اثرات تب سامنے آئے جب 20-2019 میں پاکستان کی برآمدات 8 کروڑ 40لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 78 لاکھ ڈالرر رہ گئی تھیں، تاہم 22-2021 میں پاکستان سے بھارت کی گئی برآمدات 31کروڑ 7لاکھ 35 ہزار ڈالر رہیں جو پچھلے سال 38 کروڑ 9لاکھ ڈالر تھیں، جبکہ پاکستانی درآمد کنندگان نے بھارتی مصنوعات کی درآمد کے لیے دبئی اور دیگر ممالک کا راستہ اختیار کیا۔
بھارت کے شہر چندی گڑھ میں مقیم صحافی اور بلاگر چنچل ایم ایس بیدی نے ڈان کو واٹس ایپ کے ذریعے بتایا کہ پاکستانی درآمد کنندگان دبئی کے راستے بھارت سے تجارت کرتے ہیں، واہگہ بارڈر کے قریب چندی گڑھ میں پاکستانی روپے میں ایک کلو پیاز کی قیمت 69 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ٹماٹر 89 روپے فی کلو اور آلو 69 روپےفی کلو میں دستیاب ہے۔
مزید پڑھیں: پاک-بھارت بہتر تعلقات سے 30 ارب ڈالرتک تجارت بڑھا سکتے ہیں، بھارتی ہائی کمشنر
چنچل ایم ایس بیدی نے مزید کہا کہ یہ فصلیں اس موسم میں وافر مقدار میں موجود ہیں اور واہگہ بارڈر کے ذریعے آسانی سے پاکستان کو برآمد کی جا سکتی ہیں، اگر برآمدات کے لیے بڑی تعداد میں خریداری کی جائے گی تو ان کی قیمتیں کم ہوں گی۔
متحدہ عرب امارات پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک مانا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت 22-2021 کے دوران 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جبکہ متحدہ عرب امارات کو پاکستان کی برآمدات 1 ارب 36 کروڑ ڈالر ہے اور یو اے ای سے درآمدات 8ارب 66 کروڑ ڈالر رہیں، ان اعدادوشمار سے پاکستان کی دبئی اور بھارت کے ساتھ تجارت میں واضح فرق نظر آتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کسی تیسرے ملک کے ذریعے اشیا منگوانے کے بجائے براہ راست درآمد کرکے زرمبادلہ بچانے کے ساتھ ساتھ لاگت میں کمی بھی لا سکتا ہے کیونکہ کسی تیسرے ملک سے خریداری سے لاگت میں اضافہ ہو گا، انہوں نے کہا کہ مقامی مارکیٹ میں سپلائی کو بہتر بنانے کے لیے واہگہ کے ذریعے سبزیوں کی براہ راست درآمد مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے نجی شعبے کو بھارت سے 5لاکھ ٹن سفید چینی اور واہگہ بارڈر کے راستے روئی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم اُس وقت کی اپوزیشن جماعتوں (مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی) کی جانب سے شدید تنقید کے بعد چند دنوں بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔