پاکستان

سندھ: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار

صرف اگست میں بچوں میں اسہال اور پیچش کے ایک لاکھ 93 ہزار 48 کیسز رپورٹ ہوئے، جو اس سال اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے، ماہرین صحت

صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال کو 'انتہائی نازک' قرار دیتے ہوئے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے سینئر ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پینے کے پانی اور خوراک تک محدود رسائی والے زیادہ تر علاقے پانی سے ہونے والے انفیکشن کی لپیٹ میں ہیں، جن میں شدید اسہال، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور جلد کی بیماریاں شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے یاد دلایا کہ سندھ میں رواں سال مارچ سے ڈائریا کے انفیکشن میں اضافہ ہو رہا ہے اور تباہ کن بارشوں نے صحت کے چیلنجز کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ میں صرف اگست میں بچوں میں اسہال اور پیچش کے ایک لاکھ 93 ہزار 48 کیسز رپورٹ ہوئے، جو اس سال اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے جبکہ جولائی میں کل ایک لاکھ 17 ہزار 9 سو 99 کیسز سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدہ علاقوں تک امداد پہنچانے میں فلاحی تنظیموں کو مشکلات درپیش

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر کے سربراہ ڈاکٹر عثمان مکو نے کہا کہ 'حکومت کی امدادی کوششیں چشم پوشی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور زیادہ تر لوگوں کی اب بھی پینے کے صاف پانی اور خوراک تک رسائی نہیں ہے اگر انہیں فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو وہ بھوک اور بیماری سے مر جائیں گے۔

ڈاکٹر عثمان مکو اپنے آبائی شہر میں سیلاب آنے سے پہلے سکھر سے اپنے خاندان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان سمیت کئی لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں جبکہ دیگر مقامات پر 2 سے 3 فٹ پانی کھڑا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پناہ لینے کے لیے شاید ہی کوئی خشک جگہ ہو، لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ پانی کیسے نکالا جائے، گیسٹرو اینٹرائٹس جیسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، جو آبادی خصوصاً بچوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تباہی بڑے پیمانے پر تھی اور چند این جی اوز کام کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتیں، صرف حکومت اور فوج ہی سیلاب کے پانی سے منقطع ہوجانے والے علاقوں تک پہنچ سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کی تعداد سوا 3 کروڑ سے زائد ہونے کا خدشہ

پی ایم اے کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے صورتحال کو 'انتہائی خطرناک' قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی امداد دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ٹیمیں کئی اضلاع میں کام کر رہی ہیں اور وہ ہمیں بتا رہی ہیں کہ سیلاب زدہ سڑکوں سے دور علاقوں میں بہت سے لوگ امداد کے منتظر ہیں، یہ علاقے گیسٹرو اینٹرائٹس سمیت متعدد بیماریوں کے پھیلاؤ کی لپیٹ میں ہے۔

پینے کے پانی، خوراک اور ادویات کی ضرورت

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے ڈاکٹر عبداللہ متقی نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں حالات 'انتہائی خراب' ہیں اور مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں میں فوری طبی علاج اور بیماریوں سے بچاؤ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بخار عام ہے اور ہم ڈینگی یا ملیریا کا امکان مسترد نہیں کرسکتے، ہماری ٹیموں کے سامنے سانپ کے کاٹنے کے بھی کئی کیسز سامنے آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدگان کیلئے مختلف ممالک کی جانب سے امدادی سامان کی آمد جاری

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر وسیم جمالوی، جنہوں نے حال ہی میں دادو میں ایک سرکاری امدادی کیمپ کا دورہ کیا ہے، نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ہیلتھ کیمپس میں زیادہ بھیڑ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو پینے کا صاف پانی، مچھر مار دوا، عام ادویات، خیمے، کپڑے اور کھانے پینے کی اشیا جیسی بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔

محکمہ صحت کے ترجمان نے سیلاب اور آلودہ پانی کو انفیکشن بالخصوص ڈائریا میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

محکمہ صحت کے ترجمان مہر خورشید نے کہا کہ شدید سیلاب نے لوگوں تک رسائی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو مشکل بنا دیا ہے، تاہم سندھ بھر میں طبی کیمپ لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مون سون کے سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں تک ریلیف اور طبی امداد پہنچانے کے لیے تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران اور ڈپٹی کمشنرز اپنی کوششوں کو مربوط کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اقوامِ متحدہ آج پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے 16 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کرے گی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کئی طبی کیمپ اسکولوں کی عمارتوں میں لگائے گئے ہیں جب کہ موبائل ہیلتھ یونٹس سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیمپ ڈائیریا، ہیضہ، گیسٹرو کے لیے ضروری ادویات کے ساتھ ساتھ ویکسین اور غذائی سپلیمنٹس جبکہ مچھروں اور ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکنے کے لیے فوگنگ اور فیومیگیشن کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔