کراچی: جزلان قتل کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نے طالب علم جزلان فیصل کے مبینہ قتل سے متعلق 3 بھائیوں اور ان کے والد سمیت 5 ملزمان کے خلاف مقدمے کی کارروائی انسداد دہشت گردی کی عدالت-16 میں منتقل کر دی۔
مرکزی ملزم حسنین فیض، ان کے بھائی عرفان فیض، احسان فیض، ان کے والد محمد فیض اور دوست انشال کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں 25 مئی کو تنازع پر نوجوان جزلان کو گولیاں مار کر قتل کرنے کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے، تفتیشی افسر نے حتمی چالان جمع کروایا تھا، جس میں تین بھائیوں، ان کے والد اور دوست کو نوعمر طالب علم کے قتل اور اکسانے کے لیے چارج شیٹ کیا گیا تھا۔
انہوں نے فہرست میں 9 گواہان کے نام شامل کیے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: جزلان قتل کیس کے دو ملزمان عبوری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فرار
تفتیشی افسر اسلم جٹ کی جانب سے پیش کیے جانے والے حتمی چالان میں بتایا گیا کہ تحقیقات، واقعے کے ثبوت اور گواہوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ مفرور ملزم محمد احسن نے اپنے والد محمد فیض کے اکسانے پر جزلان فیصل کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، جس کا ملزم کے بھائی محمد حسنین کے ساتھ معمولی جھگڑا ہوا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ احسن نے اپنے والد کے 9 ایم ایم بور والے لائسنس یافتہ پستول سے فائر کیا جبکہ اس کے دوست انشال، جنہیں ریٹائرڈ میجر کا بیٹا بتایا جاتا ہے، نے 0.30 بور والی پستول سے فائر کرکے شاہ میر کو زخمی کر دیا تھا۔
چالان میں بتایا گیا کہ حسنین، عرفان اور انشال نے متاثرین کو قتل کرنے کے ارادرے سے فائرنگ کی جس سے علاقے میں دہشت پھیل گئی جبکہ عرفان نے مقتول کی کار کو اپنی کار سے روکا اور متاثرین کو مارا۔
اس میں مزید بتایا گیا کہ ملزم محمد فیض نے اپنا لائسنس یافتہ پستول جرم میں غیر قانونی استعمال کرنے کے لیے دے کر اپنے بیٹے کو اکسایا تاکہ وہ متاثرین کو قتل اور زخمی کرسکے۔
مزید پڑھیں: جزلان قتل کیس، ایک اور ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
بعدازاں، انہوں نے اسلحہ چھپا لیا اور گھوٹکی کے تھانے اے سیکشن میں اسلحے کی چوری کی جعلی رپورٹ درج کروائی۔
چالان میں کہا گیا کہ مفرور ملزم احسن، اس کے بھائی عرفان اور حسنین اور ان کے دوست انشال جزلان کے مبینہ قتل اور اس کے دوست شاہ میر کو زخمی کر کے جرم کا ارتکاب کیا ہے جبکہ فیض جرم کو چھپانے کے لیے ثبوت (پستول) چھپا کر جرم میں ملوث پایا گیا۔
تفتیشی افسر اسلم جٹ نے دعویٰ کیا کہ ملزمان تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل کرنا ) دفعہ 324 (اقدام قتل)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ) دفعہ 109 ( جرم میں معاونت کی سزا)، دفعہ 114 (جرم کے ارتکاب کے وقت معاون کی موجودگی)، دفعہ 216 اے (ڈاکوؤں کو پناہ دینے کی سزا) کے تحت قصوروار ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشتگردی کے عمل کی سزا) کو بھی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں شامل کیا گیا ہے۔
جزلان فیصل قتل کیس
یاد رہے کہ 25 مئی کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں ایک تنازع پر ملزمان نے 19 سالہ جزلان فیصل کو گولی مار کر قتل جبکہ ان کے دوست شاہ میر علی کو زخمی کردیا تھا۔
مقتول نوجوان نے مشتبہ افراد کے رات گئے بحریہ ٹاؤن میں بائیک چلانے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
مقتول کے چچا کی مدعیت پر گڈاپ سٹی پولیس اسٹیشن میں منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل کرنا ) 324 (اقدام قتل)، 34 (مشترکہ ارادہ) 109 ( جرم میں معاونت کی سزا) اور 114 (جرم کے ارتکاب کے وقت معاون کی موجودگی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں مقتول کے چچا عارف صابر نے کہا تھا کہ وہ ہارون بنگلوز میں اپنے گھر پر تھے جب انہیں شاہ میر کا فون آیا جس نے انہیں بدھ کی رات 2 بجے کے قریب آغا خان یونیورسٹی ہسپتال پہنچنے کو کہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے جزلان قتل کیس میں نامزد ملزم کو بچہ جیل بھیج دیا
انہوں نے ایف آئی آر میں کہا تھا کہ جب وہ ہسپتال پہنچے تو ان کا بھتیجا جزلان اور شاہ میر گولیوں کے زخموں کے ساتھ ایمرجنسی وارڈ میں داخل تھے، جزلان بے ہوش اور وینٹی لیٹر پر تھا مگر شاہ میر بولنے کے قابل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہ میر نے بتایا کہ وہ جزلان کے ہمراہ اپنے دوست زرغام کی کار میں ایک رشتہ دار ابراہیم سے ملنے کے بعد واپس آرہے تھے، وہ جناح ایونیو کی طرف سفر کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک نوجوان کو انتہائی خطرناک انداز میں موٹرسائیکل پر سوار دیکھا جو ان کی گاڑی کو ٹکر مارنے سے تھوڑے سے فاصلے سے بچ گیا۔
انہوں نے ایف آئی آر میں مزید بتایا تھا کہ شاہ میر نے کہا کہ جب وہ بحریہ ٹاؤن کے ایفل ٹاور پر پہنچے تو کار میں سوار مشتبہ افراد نے دوسری گاڑی سے کراس فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں شاہ میر اور جزلان کو گولیاں لگیں اور ان کا دوست زرغام معمولی زخمی ہوا، جزلان کو سر میں گولی لگی تھی۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ فائرنگ کے بعد بہت لوگ وہاں پہنچ گئے جو انہیں بحریہ ٹاؤن کے قریبی ہسپتال لے گئے اور بعد میں انہیں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں جزلان دوران علاج جاں بحق ہوگیا۔