پاکستان

شہباز گل کی ضمانت کیلئے درخواست، عدالت کا پولیس کو ریکارڈ پیش کرنے کا حکم

عدالت میں ریکارڈ پیش نہیں کیا جاتا تو ایس ایس پی اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کریں گے، عدالت
|

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے وفاقی پولیس کو حکم دیا ہے کہ بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے مقدمے کا ریکارڈ کل تک پیش کیا جائے۔

گزشتہ روز شہباز گل نے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔

ملزم شہباز گل کی جانب سے فیصل چوہدری اور سردار مصروف خان عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل نے درخواست ضمانت دائر کردی

ملزم شہباز گِل کی جانب سے بعداز گرفتاری ضمانت کی درخواست پر ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے سماعت کی، انہوں نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کدھر ہے، ریکارڈ کہاں ہے، کیا تفتیشی افسر کو نوٹس نہیں ملا۔

اسلام آباد پولیس کے سب انسپکٹر نے عدالت کو بتایا کہ نوٹس شام کو ملا تھا جبکہ تفتیشی افسر صبح کے وقت کراچی چلے گئے تھے، وہ کراچی سے اتنی جلدی نہیں آسکتے۔

عدالت نے حکم دیا کہ دس بجے تک کا وقت دیتا ہوں، تفتیشی افسر ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں۔

پولیس افسر نے بتایا کہ تفتیشی افسر نے دوسرے ملزم کی گرفتاری کرنی ہے اور ریکارڈ کراچی ساتھ لے کر گیا ہے۔

پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ وہ کراچی سے اتنی جلدی نہیں آسکتے۔

جج نے وارننگ دی کہ اگر عدالت میں ریکارڈ پیش نہیں کیا جاتا تو سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو طلب کریں گے۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ ہم تفتیشی افسر کو ائیر لائن کا ٹکٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: بغاوت کا کیس: شہباز گل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

پولیس افسر نے استدعا کی کہ تفتیشی افسر کل شام کو واپس پہنچیں گے، عدالت میں پیر تک ریکارڈ پیش کر دیں گے۔

عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ کل تک ریکارڈ پیش کریں۔

گزشتہ روز بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے بھائی یسٰین گل نے انہیں پولیس کی تحویل میں ریمانڈ دینے پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) زیبا چوہدری کے خلاف شکایت درج کروا دی تھی۔

یسٰین گل نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس اور عدالت کی انسپکشن ٹیم (ایم آئی ٹی) کے رکن کو شکایت درج کروائی تھی۔

شہباز گِل کے خلاف مقدمہ

شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے(بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا شہباز گل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم

شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے ڈاکٹر شہباز گِل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔

16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے آج ہی سننے کا حکم دیا تھا۔

17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہباز گل کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز (ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے گئے تھے حالانکہ جیل حکام کو یقین تھا کہ ان کے پاس شہباز گل کے علاج کی سہولیات موجود ہیں۔

راولپنڈی پولیس کے ساتھ اس معاملے پر 2 گھنٹے طویل تعطل کے بعد اسلام آباد پولیس فورس بالآخر شہباز گل کو اپنی تحویل میں لینے میں کامیاب ہوگئی تھی اور انہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا، بعد ازں پمز ہسپتال نے ان کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے ایک 5 رکنی بورڈ بھی تشکیل دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: شہباز گل کو تحویل میں لینے کے معاملے پر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے درمیان رسہ کشی

19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا اور دوبارہ میڈیکل کرا کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

22 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے مقدمے میں رہنما پاکستان تحریک انصاف کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

شہباز گل کا متنازع بیان

9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: شہباز گل کے معاون کی اہلیہ کی ضمانت منظور

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

200 سے 300 یونٹ والے بجلی صارفین کو ریلیف کی فراہمی کیلئے کمیٹی تشکیل

اقرار الحسن سے شادی ایک دہائی قبل ہوئی تھی، فرح اقرار

آزادی مارچ میں پی ٹی آئی کےخلاف کارروائی میں ملوث افسران کوسزا دینے کیلئے کمیٹی تشکیل